اسے کہناسلینڈر آ گیا ہے


پچھلے مہینے کے آغاز میں سنا تھا کہ نومبر آ گیا ہے۔دسمبر کی تو روایت شاعری میں ہے۔یاروں نے پیاری نظمیں لکھی ہیں۔بھیگا بھیگا سا دسمبر ہے۔ بھیگی بھیگی سی تنہائی ہے۔مگر دسمبر کو لے کر جو یہ شاعری کا کباڑا نکالنے کو نکل آئے ہیں وہ نومبر پر بھی اور پھر کل کو جنوری کے آنے پر بھی نظمیں لکھیں گے۔بلکہ کہیں بازگشت تو جنوری کی بھی سنی تھی۔ مگر میرا مدعا کچھ اور ہے اور پھرقابلِ غور ہے۔وہ یہ ہے کہ اسے کہنا دسمبر آگیا ہے اور گھر میں سلینڈر آگیا ہے۔دسمبر کے آنے سے کیا ہوتا ہے دسمبر ہو جنوری یا کل کو ستمبرآ جائے۔ہاں ان مہینوں میں جو چیز مشترک ہے وہ صرف حرف ”ر“  ہے۔انگریزجب ہم پر ہمارے ہاں حکومت کرتے تھے تو انھوں نے اپنا ایک قول بنایا تھا کہ جن مہینوں میں انگلش زبان کا ”آر“  آئے ان ماہ میں آپ مچھلی کھا سکتے ہیں۔کیونکہ یہ بہت گرم ہوتی ہے اور ان مہینوں میں سردی ہوتی ہے۔باقی مئی جون جولائی اگست میں چونکہ موسم پہلے ہی گرم ہوتا ہے تو مچھی جیسی نعمت نہ کھائیں۔ مگر ان کو کیا معلوم ہمارے ہاں ایسے لوگ بھی ہیں کہ آگ کو پانی کر کے پی جاتے ہیں۔ہمارے ہاں سارا سال مچھلی کھائی جاتی ہے اور خوب کھائی جاتی ہے بلکہ دبا کر کھائی جاتی ہے۔مگر ان ہوٹلوں میں جہاں کچن میں لکڑیاں جلتی ہیں۔کیونکہ وہاں تو گیس نایاب ہوتی ہے۔بھاڑ بھڑک رہا ہوتا ہے۔الاؤ روشن ہوتا ہے اور کڑایا جلتا ہوا ہمہ وقت پایا جاتا ہے اس میں کاٹ کر مچھلی ڈالو تیل یا گھی میں مچھلی تلتے جاؤ مفت میں پیسے کماتے جاؤ۔اگر یہ سب کچھ گیس پر منتقل ہو جائے تو مچھلی کا کاروبار ٹھپ ہو جائے۔ دکاندار ہاتھ پہ ہاتھ دھرے یونہی بیٹھے رہیں گے اور اگر ہاتھوں میں حرکت ہو بھی تو مکھیاں مارنے کے لئے ہوگی۔ گیس پر رہے تو گئے کام سے۔دسمبر آ جانے سے کیا ہوگا۔سردی ہو جائے گی۔ شاعرتو کچھ بھی کہہ دیتے ہیں۔ آگ کو پانی بنا کر پیش کرتے ہیں مگر اس سے آگ کی تپش اور جلن میں رتی برابر فرق نہیں آتا۔پانی کو برف کے ساتھ ملا کرظاہر کرتے ہیں کہ پانی تو برف ہے۔مگر پانی محلول ہے اور برف پتھرہے۔کسی کو مارو تو سر پھوڑ دواو رپانی اچھالوتو اگلاگرمیوں میں خوش ہو جائے اور سردیوں میں ناراض ہو جائے۔دسمبر آ جانے سے گذرے سال کا جذباتی انداز میں آڈٹ کیا جاتا ہے۔ خواہشوں کو جو پوری نہ ہو ئیں گننے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مزید خواہشات اورتوقعات کااظہار کیا جاتا ہے۔مگر ہمارا تو اس وقت معاملہ گیس کی بندش ہے۔دسمبر آگیا تو اس کو کہنا کہ دسمبر کے آنے سے گھرمیں سلینڈر آگیا ہے۔دسمبر آگیا تو اس پر جذبات کا اظہار شاعری میں خالی خولی باتوں پر ہوتا ہے۔وہ یہ کہ پچھلے دسمبرمیں وعدہ کیا تھا کہ اگلے دسمبر میں میرے لئے تارے توڑکر لاؤ گے.سو اب اس کو اس کا وعدہ یاد دلانا کہ دسمبر آگیا ہے۔ مگر جذبات اور ہیں پھر حقیقی باتیں او رہوتی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ دسمبر میں گیس چلی گئی ہے۔ جو اکتوبرتک کسی نہ کسی طرح آ رہی تھی مگر اب دسمبرکے آتے ہی غائب ہوئی ہے کہ تندوروں پر گیس کے سلینڈر لا کر کنکشن کے ساتھ جوڑدیئے ہیں۔ پھر صبح صبح پراٹھے فروخت کرنے والوں نے گیس کے نہ ہوتے فروٹ کی پیٹیوں کے گتے جیسے لکڑی کے ٹکرے اس دھیمی دھیمی سی آگ پر رکھ کرننھی زبان ہلاتا آگ کا شعلہ زیادہ کر دیا تاکہ اس کی زبان دراز ہو۔گیس کھینچنے والی بجلی کی کٹیں تب کام کریں گی جب بجلی ہوگی۔جب بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہوگی تو وہ گیس کیسے مہیاکریں گی۔پھر یوں بھی کہ کہیں جب بجلی آئے گی تو گیس چلی جائے گی۔یہ چوہے بلی کاکھیل تاحال جاری ہے‘ تندوروں میں گیس کے بڑے بڑے سلینڈر رکھ دیئے گئے جو آدمی کے قد کے برابر ہیں۔پھر ایک نہیں تین تین رکھے ہیں تاکہ تندور کا کام رکنے نہ پائے۔سنا تھا کہ سرکاری عملہ گھر گھر سلینڈر تقسیم کرے گا  اور اس گیس کے نظام کی بساط واپس لپیٹ دی جائے گی۔مگر اس بات کو بھی تو سال ہونے لگا ہے۔گرمی میں جب گیس کی اتنی ضرورت نہیں ہوتی گیس کے بارے میں یہ اطلاع ملی تو اب سرما میں کتنی قلت ہے۔سو جو کہا اس پر عمل بھی تو نہیں کر رہے۔مگر حیرانی ضرور ہے کہ جب گیس نہیں دیتے تو گیس کے بھاری بل کیوں بھیج دیتے ہیں۔