آج کل دیوا لیہ پن، ڈیفالٹ، ما لیا تی خسارہ اور ناکام ریا ست کی باتیں ذرائع ابلاغ کے اندر دہرائی جا رہی ہیں سو شل میڈیا کے شتر بے مہار کی طرف نظر دوڑائیں تو ایسا لگتا ہے کہ مریض چند لمحوں کا مہمان ہے بہتری کی کوئی امید نہیں جس بات پر زور دیا جا رہا ہے وہ معا شی استحکام ہے بات درست ہے لیکن استحکام کی تر جیحات کا ذکر کوئی نہیں کر تا، استحکام کے لئے کن چیزوں کی ضرورت ہو تی ہے؟ اس کا ذکر نظر نہیں آتا،استحکام کے عنا صر تر کیبی میں قوت، مضبو طی اور عزم تینوں ضروری اجزاء ہیں عزم کے لئے نظریہ درکار ہے، مضبوطی کے لئے اتفاق اور اتحاد کی ضرورت ہو تی ہے، قوت حا صل کرنے کے لئے محنت کی ضرورت پڑ تی ہے پھر نظریہ، اتحاد اور محنت کی ضرورت پڑ تی ہے، اتحا د اور محنت کے کئی تقاضے ہیں، ہر تقاضے کے کئی جزئیات ہیں ابن خلدون، اما م غزالی، ٹائین بی اور دیگر ما ہرین عمرانیات نے ان جزئیات پر قلم اٹھا یا ہے سمو ئیل ہنٹنگن کے ہاں بھی استحکام کی یہی مبا دیات ملتی ہیں ڈاکٹر مبا رک علی نے بھی انہی خطوط پر کا م کیا ہے یہ بہت وسیع مو ضوع ہے اس کا خلا صہ ایک سوال میں پو شید ہ سوال یہ ہے کہ مر غی پہلے پیدا ہوئی یا انڈہ پہلے پیدا ہوا؟ آپ کہیں گے مر غی پہلے تو وہ کہے گا جب انڈہ نہیں تھا تو مر غی کیسے پیدا ہوئی؟ آپ پینترا بدل کر کہیں گے انڈہ پہلے آیا تو وہ کہے گا جب مر غی پیدا نہیں ہوئی تھی تو انڈا کیسے اور کہاں سے آیا؟ وہ کہے گا، عقلی دلیل دو سائنس کی روشنی میں جواب دو، بالکل اسی طرح آپ اگر کہیں گے عزم پہلے آتا ہے تو وہ کہے گا کس کا
عزم؟ اگر آپ کہیں گے کہ مضبوطی پہلے آتی ہے وہ الٹا سوال کرے گا کہ کہاں کی مضبوطی؟ اگر آپ کہیں گے قوت پہلے آتی ہے تو وہ اگلا سوال کرے گا کہ کیسی قوت؟ قوموں کی زند گی میں کئی بار ایسے موڑ آتے ہیں جہاں تر جیحا ت کا سوال اٹھتا ہے ترجیحات میں دیکھا جا تا ہے کہ استحکا م کے لئے سب سے پہلے کیا کرنا چا ہئے؟ اس سوال کا جو تیر بہدف جواب دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ سب سے پہلے سیا سی استحکام ہونا چا ہئے، اس کے بعد نظریاتی استحکام آئے گا۔نظر یا تی استحکا م کے ساتھ ہی معا شی استحکا م کا سفر شروع ہو گا، بعض ما ہرین نے رائے دی کہ سیاسی نظریہ کا نمبر سیاست سے پہلے آتا ہے لیکن اس کو یہ کہہ کر رد کیا گیا کہ سیا سی استحکام سے نظر یہ جنم لیتا ہے،سیا سی استحکام نہ ہو تو نظریے پر سوالات اٹھائے جا تے ہیں۔ سیا سی استحکام پہلے ہے یہ زندہ قوموں کی پہلی تر جیح ہے اس کے نتیجے میں سیاسی نظریے کو تقویت ملتی ہے، دونوں ملکر معا شی استحکام کا باعث بنتے ہیں۔جا پا ن 1945میں تبا ہ ہو چکا تھا۔ جا پا نیوں نے سیا سی استحکام کے ذریعے ملک کو ترقی دے کر دنیا کے آٹھ طاقتور مما لک میں خود کوشا مل کر لیا۔ جا پا ن میں 77سالوں کے دوران کئی وزرائے اعظم آئے، کئی وزرائے خزانہ آئے مگر پا لیسی تبدیل نہیں ہوئی، عوامی جمہوریہ چین کی تر قی کا راز بھی سیا سی استحکام میں مضمر ہے، جنو بی کوریا کی تر قی کا راز بھی ان کا سیا سی استحکام ہے،اگر ہم وطن عزیز پا کستان کو معا شی تر قی کی راہ پر گامزن کرنا چا ہتے ہیں تو ہمیں سیا سی استحکام پر تو جہ دینا ہو گی دیوالیہ پن، ڈیفالٹ اور ما لیا تی خسارے کی بنیا دی وجہ سیا سی عدم استحکام ہے 1999سے 2008تک ملک کی ترقی کا راز بھی یہی تھا کہ وہ سیا سی استحکا م کا دور تھا اب بھی وقت ہے اگر سیا سی جما عتیں سیا سی بلو غت کا مظاہرہ کر یں گی تو معا شی استحکام آئے گا۔