عام شہری کی مشکلات

روس نے تیل کی قیمتوں کے بارے میں یورپی یونین جی سیون کا فیصلہ مسترد کر دیا ہے، روس کے صدر مشرقی یوکرین کا دورہ کرنے والے ہیں انہوں نے کہا ہے کہ مغرب مطالبات تسلیم کرے، لگ یہ رہا ہے امریکہ اب بھی سوویت یونین سے جدا ہونے والی ریاستوں کی ہلہ شیری سے باز نہیں آ رہا ورنہ یوکرین اور روس کا تنازعہ کب کا ختم ہو چکا ہوتا۔واضح رہے کہ یورپی یونین نے گزشتہ روز روسی تیل کی قیمت کی حد متعین کی، جس سے جی سیون ممالک نے بھی اتفاق کر لیا ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے اس اقدام سے روسی صدر کی آمدن کے سب سے اہم ذرائع میں فوری طور پر کمی ہونے کا امکان ہے۔سب سے پہلے یورپی یونین نے اس پر اتفاق کیا اور اس کے فوری بعد جی سیون گروپ میں شامل امریکہ، کینیڈا، جرمنی، جاپان، برطانیہ، فرانس، اٹلی اور آسٹریلیا جیسے ممالک نے بھی اس کی توثیق کر دی۔گزشتہ دنوں یورپی یونین میں شامل ایک ملک کے اعلیٰ عہدیدار کا یہ کہنا بہت معنی خیز ہے کہ روس کی معیشت جنگ سے متاثر نہیں ہوئی ہے اور یہ کہنا غلط فہمی ہوگی کہ روس جنگ ہار رہا ہے۔روس کے صدر یوکرین کو سبق سکھانے پر تلے ہوئے ہیں اور اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ یوکرین نے امریک کے کہنے پر آکر روس سے دشمنی مول لی اور اب اس جنگ کا نتیجہ روس اپنے حق میں پلٹنے کیلئے آخری حد تک جانے کو تیار ہے کیونکہ وہ روس اور امریکہ کے ہاتھوں ماضی میں جو زخم سہہ چکا ہے وہ اب دوبارہ سہنے کیلئے تیار نہیں، روسی صدر پیوٹن سوویت یونین ٹوٹنے کے تمام رازوں سے واقف ہے اور اسے معلوم ہے کہ اس تمام کھیل کے پیچھے کونسے ممالک سرگرم تھے اسلئے تو وہ امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ اب بالکل ہی مختلف قسم کا رویہ رکھنے کا حامی ہے۔روس کی یہ خوش قسمتی رہی کہ اسے چین کی صورت میں ایک قابل اعتماد دوست ملاہے جو اس کے ساتھ زندگی کے تمام شعبوں میں نہ صرف تعاون کررہاہے بلکہ عالمی سطح پر اس نے روس کے موقف کا کھل کر ساتھ دیا ہے۔ اب کچھ اور اہم معاملات کی طرف آتے ہیں، ہر ذی شعور کا یہ دیکھ کر دل دکھتا ہے کہ وطن عزیز میں معاشی عدم استحکام کے اثرات عام شہری پر بہت زیادہ مرتب ہوئے ہیں مہنگائی نے اس کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ ایک عام شہری کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ ملک میں کونسانظام حکومت ہے، صدارتی ہے کہ پارلیمانی، سے تو اس سے غرض ہے کہ اسے زندگی کی بنیادی ضروریات آسانی سے دستیاب ہوں اور دیکھا جائے تو موجودہ دور میں یہ مسئلہ بدستور موجود ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ تمام سیاسی قائدین کو خواہ ان کا تعلق حکومت سے ہے یا پھر حکومت مخالف جماعتوں سے وہ سب مل کر ایک عام شہری کے نکتہ نظر سے حالات کو دیکھیں کہ اس کو کن مشکلات سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاسی عدم استحکام ہی معاشی مشکلات میں اضافے کا باعث ہے اور اس صورتحال کا خاتمہ جس قدر جلد ہو اسی قدر بہتر ہے۔