موسم سرما کی شامیں دھند اور دھوئیں (سموگ) کی وجہ سے یادگار نہیں رہیں۔ شہر کا کوئی ایک بھی ایسا حصہ نہیں رہا جہاں کھلی ہوا میں چہل قدمی کرنا صحت بخش قرار دیا جاتا ہو کیونکہ ’پھولوں کے شہر‘ کی فضا میں زہر گھل چکے ہیں! پشاور سمیت خیبرپختونخوا کے مختلف حصوں میں ملک کے دیگر شہروں بالخصوص پاکستان کے ثقافتی صدر مقام ’لاہور‘ میں ’سموگ‘ خطرناک حدوں کو چھو رہا ہے چونکہ زہریلی ہوا اِس قدر وسیع علاقے کا احاطہ ہوئے ہوتی ہے کہ اِس کی صفائی یا اِس سے بچنے کی کوئی بھی تدبیر کارگر نہیں ہو سکتی البتہ ایسے اقدامات کئے جا سکتے ہیں جن کی وجہ سے سموگ میں اضافہ نہ ہو اور اِس سلسلے میں دھواں اگلنے والی گاڑیوں پر عائد پابندی کا سختی سے اطلاق شامل ہے۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ ماحول کے تحفظ کے لئے قوانین و قواعد تو موجود ہیں لیکن اِن پر خاطرخواہ عمل درآمد دیکھنے میں نہیں آ رہا اور یہ اضافی پریشانی کا باعث امر ہے کیونکہ تحفظ ماحول کے لئے ذمہ دار حکام اپنے فرائض سے عہدہ برآ نہیں ہو رہے۔ سٹی ٹریفک پولیس نے آلودگی پھیلانے والی گاڑیوں پر قابو پانے کے لئے مختلف اقدامات کا اعلان کیا ہے لیکن اطلاعات کے مطابق اب بھی چالیس فیصد سے زائد گاڑیاں دھواں چھوڑتی ہیں اور یہ سموگ میں اضافے کا باعث ہیں۔ فضائی آلودگی صرف پشاور کا مسئلہ نہیں بلکہ ملک بھر میں موٹر سائیکل‘ بسیں اور چھوٹی بڑی گاڑیاں ماحول کے لئے سنگین خطرہ بنی ہوئی ہیں۔پاکستان میں کہیں بھی گاڑیوں کو ”فٹنس سرٹیفکیٹ“ دینے کا مؤثر طریقہ کار رائج نہیں۔ دنیا کے تقریباً تمام بڑے شہروں میں ایسی گاڑیوں پر پابندی ہے جن کے پاس ”فٹنس سرٹیفکیٹ“ نہیں ہوتا لیکن پاکستان میں عجیب و غریب صورتحال ہے کہ فٹنس سرٹیفکیٹ کے اجرأ سے متعلق قواعد تو موجود ہیں اور اِس مقصد کے لئے حکومتی اہلکار و دفاتر بھی مقرر ہیں لیکن اِس فٹنس سرٹیفکیٹ کا حصول مذاق بن گیا ہے اور اِس کی قدر و اہمیت نہیں رہی۔ عموماً تصور کیا جاتا ہے کہ صرف بڑی گاڑیاں فضائی آلودگی کا باعث بنتی ہیں لیکن خالصتاً ایسا نہیں ہے بلکہ چھوٹی گاڑیاں اور آٹو رکشا بھی ہوا کو آلودہ کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں جس کی وجہ سے سموگ پیدا ہوتی ہے۔ رجسٹرڈ گاڑیوں کے علاوہ دیہی اور شہری علاقوں میں سڑکوں پر غیر رجسٹرڈ گاڑیوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ یہ گاڑیاں نہ صرف سموگ کا مؤجب ہیں بلکہ ملک بھر میں اکثر سڑکوں پر ٹریفک کی بھیڑ رہتی ہے۔ لاہور اُن چند شہروں میں سے ایک ہے جس کی مرکزی شریانوں اور اطراف کی سڑکوں پر بڑے پیمانے پر ٹریفک کے بہاؤ میں تعطل دیکھنے میں آتا ہے اور ایسے مصروف علاقے زیادہ تر فضائی آلودگی اور سموگ سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو دیگر ممالک سے ایندھن کی درآمد پر بھاری رقم خرچ کرتا ہے۔ بڑھتی ہوئی ٹریفک کی خرابی کے ساتھ ہوا میں دھویں کی مقدار زیادہ ہے اور ملک ایندھن کی درآمد پر بھی زیادہ خرچ کرتا ہے۔ اس ایندھن کی قیمت کا بڑا حصہ سموگ میں تبدیل ہو رہا ہے اگر حکومت ’سستی اور باعزت‘ پبلک ٹرانسپورٹ کی فراہمی میں سرمایہ کاری کرے تو شہری علاقوں میں بالخصوص فضائی آلودگی پر بڑی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔ توجہ طلب ہے کہ اگر سرکاری ہسپتال پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ پر مراعات یافتہ طبقے کو دیئے جا سکتے ہیں تو عوام کی سہولت اور زیادہ بڑے فائدے کے لئے ’پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ٹرانسپورٹ اسکیم‘ بھی متعارف کروائی جا سکتی ہے اور ایسا ہونا بھی چاہئے۔ پبلک ٹرانسپورٹ صنف‘ عمر یا مالی طور پر کسی طبقے کی ضروریات سے قطع نظر سب کے لئے ’قابل ِرسائی‘ ہونی چاہئے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے طور پر بسوں اور ٹرینوں پر مبنی نظام وضع ہونا چاہئے تاکہ گاڑی یا موٹر سائیکلوں سے بنی سواریوں کی طرح کم تعداد میں سفری سہولیات فراہم کی جائیں۔ جب تک پاکستان اپنے بڑے شہروں کی نقل و حمل کی پریشانیوں کو دور نہیں کرتا‘ اِن شہروں کی ہوا ’سموگ‘ کا شکار رہے گی۔ ’فضائی آلودگی‘ میں گاڑیوں سے اخراج ہونے والا دھواں ہی واحد ’تخریبی عنصر‘ نہیں ہے جس کی وجہ سے ہوا زہریلی ہو رہی ہے بلکہ صنعتوں اور بھٹہ خشت سے خارج ہونے والا دھواں بھی فضائی آلودگی میں اضافہ کر رہا ہے اور اِن جملہ محرکات کو ذہن میں رکھتے ’صاف آب و ہوا‘ کی فراہمی کے لئے تحفظ ماحول کے قواعد پر سختی سے عمل درآمد کی ضرورت ہے۔