یہ کسی اور شہر کی کہانی تو نہیں 

یوں کہ نقارے پہ چوٹ پڑی ہے۔طبلِ جنگ بج چکا ہو۔سرِ بازار تو بندہ آکر بھی پشیمان ہو جاتا ہے۔پاگل ہوا جاتا ہے۔گاڑی تو کیا پیدل چلنا بھی اوکھا ہوا جاتا ہے۔آدمی کس طرف کو جائے کدھر نہ جائے۔ جدھر جائے اُدھر رش ہے اور ایک ہڑا ہوڑی ایک اودھم مچا ہوا ہے۔ہاہا کار کا عالم ہے۔ جس کا جہاں بس چلتا ہے سمائے جاتا ہے یا سماجانے کی کوشش کرتا ہے۔بھلے اُس کو راستہ ملے نہ ملے۔پھر آگے جاکر پھنس ہی کیوں نہ جائے۔جیسے کوئی بارہ سنگھا جنگل میں کسی دوشاخہ درخت میں اپنے سینگ پھنسا لے۔ یہاں بھی وہی کیفیت ہے۔سودا سلف لیناکیا پھر کسی ضروری کام سے جانا ہو یا کسی شادی یا غمی کے موقع پرجلد پہنچنا ہو تو آدمی گھرسے باہر نکل کر حیران ہو کر یہاں وہاں دیکھتا ہے کہ کس طرف جائے۔ پہلے رش کے خاص اوقات ہوا کرتے تھے مگراب تو بھیڑ بھاڑکا عالم ہے اورروز ہے اورپھر ہمہ وقت ہے۔کوئی وقت خالی نہیں جاتاجب بھیڑ نہ ہو۔ خواہ آدمیوں کی ہو یاآدمی جس جس کار اور گاڑی میں سوارہوں ان کی ہو۔ مگر ایک اصول جسے کہتے ہیں وہ تو کہیں نہیں پایا جاتا۔گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں رکشہ اور چنگ چی سوزوکی میں تو جان نہیں ہوتی کہ ہم ان کو جاندارکہیں۔ مگر ان کو چلانے والوں کوہوش ہوناچاہئے۔کیونکہ ان کو چلانے والے آدمی ہی تو ہوتے ہیں۔جن کے سر کے اندر دماغ ہوتاہے۔مگروہ دماغ اچھی ذہنیت سے بھرا ہوہماری طرح خالی کھوپڑیالے کر کوئی گھوم نہ رہا ہو۔ سمجھ نہیں آتا کہ آخر اس شہر کابنے گا کیا۔ کیونکہ راستے وہی ہیں مگر ان پرآدمیوں کا رش زیادہ ہواجاتا ہے۔پھر کاروبار ہو یا کوئی اور روزگار ہو ہر آدمی اس شہرِ بے مثال میں اپنی سی مثال بن کرصبح داخل ہوتا ہے اور شام گئے اپنے آشیانے کو لوٹ جاتا ہے۔ جیسے کوئی دنگل تیار ہو اور بڑے نامی گرامی پہلوان آمنے سامنے آنے والے ہوں یا شہر نہ ہو قطر کا فٹ بال سٹیڈیم ہو جہاں دو ماضی کی بڑی چیمپئن ٹیموں کا فائنل میچ ہورہاہو اور اس میں ہزاروں لوگوں کارش ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہو۔ بندہ تو بازار آکر یوں لگے جیسے قیدیوں کی بیڑیاں پہن کر کورٹ کچہری لے جایا جا رہا ہو۔یوں راستے بندش کاشکار ہیں کہ جس گلی کو مڑ جاؤ کہ چلو یہاں سے راہ آسانی ہو جائے گی۔مگر کیا کریں کہ وہ راستہ تواوردشوار ہوجاتاہے۔بندہ اس راہ پر ہولے توآگے جاکر یوں الجھ جاتا ہے کہ اب اگرپیچھے مڑ کر واپس جانا چاہے تو بھی اس کو راستہ نہیں ملے گا۔ وہ آگے نہیں جاسکے گااور نہ ہی پیچھے موڑکاٹے گا۔ یہ سب افسانہ تو بیان نہیں ہو رہا۔سب کچھ دیکھا داکھاہوا ہے سب کچھ اپنے اوپربیتی ہے یہ کسی اور کی کہانی تو نہیں یہ اپنی ہی بد نصیبی کی داستان ہے اور اپنی بپتاہے۔یہ اسی شہر کی کہانی ہے کہ جس کا بازار قصہ خوانی مشہور ہے۔وہ جو قصہ کہانیوں کامرکز ہوا کرتا تھا۔ آج صدیاں گزر گئیں ہیں قصہ خوانی کیا خود کہانی بن گیا بلکہ ہر بازار ہر گلی کی یہاں روزانہ الگ سی کہانی ایک نیاقصہ ہے۔جو شروع تو ہوتا ہے مگر ختم نہیں ہوتا او رنہ ختم ہونے میں آتا ہے۔بس آگے ہی جاتا ہے جیسے راستے آگے جاتے ہیں اور مڑ کرواپس نہیں آتے اسی طرح جو شہری رش میں نکل جائیں ان راستوں کو کچلتے ہوئے آگے بڑھیں تو ان کی واپسی مشکل سے ہوتی ہے‘اس شہر کی حالت بلکہ حالتِ زار کی کہانی توہے مگرناقابلِ بیان ہے۔بازاروں میں جوبھی جاتاہے اور ہوکے آتا ہے اس کوان الفاظ سے جوکمپیوٹر کی سکرین پرتھرتھرارہے ہیں سو فیصد اتفاق ہوگا اور کوئی بھی ایک فی صد نہ ہوگا جس کو میری ان باتوں پراعتراض ہو۔شہر کی دُکھی حالت سے ہر ایک کو اتفاق ہے۔لیکن افسوس یہ کہ اس قابلِ افسوس حالت کے بنانے میں کسی خلاسے آنے والی مخلوق کا کوئی قصورنہیں بلکہ اس حالت کو پیدا کرنے میں خود ہمارا اپنا قصور ہے۔میرے سمیت نہ کسی کے پاس موٹر سائیکل کے اورنہ رکشے کے کاغذات پورے ہیں اور نہ ہی چنگ چی والے کے پاس کچھ ہے اور نہ سوزوکی والے پرواہ کرتے ہیں۔بس ہر ایک دوڑ رہا ہے ایسی دوڑ میں کہ جس میں ریس تو لگائی گئی ہے مگر اس کا جیت جانے والا فیتہ وہ ربن کہیں نظرنہیں آتی کہ جس کو ہم اختتام کاپوائنٹ سمجھ کر وہاں بریک لگا کربس کردیں۔ایک میراتھون ریس ہے جس میں جس کاجی چاہے وہ شامل ہے اور دوڑ رہاہے۔گاڑی والے کو کسی کی پروانہیں چھوٹے سے راستے میں بڑی گاڑی جا رہی ہے۔جس نے رش میں آگے جاتے ہوئے میاں بیوی بچوں سمیت والی بائیک کو ٹکرماردی ہے۔پھر وہ معافیاں مانگ رہا ہے۔ وہاں ایک کباڑ فروش اپنی لوہے کی گاڑی کھینچاتاہوا بیچارہ جوان جہاں گرا پڑا ہے۔اسے کوئی دورہ ساپڑا ہے اور لوگ اس کے گرد گھیرا بنا کر کھڑے ہیں کوئی اس کو پانی پلا رہاہے کوئی اس کو ہسپتال لے جانے کامشورہ دے رہاہے۔اچانک وہ مریض خود ہوش میں آجاتاہے۔میں بھی وہا ں بائیک سے اُتر کر اس دائرہ میں جا کھڑاہوتا ہوں۔صورتِ حال دیکھی تومطمئن ہوا اور پھر اپنے گھوڑے پرسوار ہو کر اسی رش میں جا داخل ہوا جہاں پہلے سے ایک مقابلے کی فضا طاری ہے اور صبح سے جاری ہے۔