اطلاعات کے مطابق چینی صدر رواں ہفتے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض پہنچ رہے ہیں۔ شی جن پنگ وہاں چین عرب سربراہی کانفرنس میں حصہ لیں گے جس میں 14عرب ملکوں کے سربراہوں کی شرکت بھی متوقع ہے۔امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکہ اور سعودی عرب کے مابین جاری کشیدگی کے درمیان ہی چین کے صدر شی جن پنگ جمعرات کے روز دو روزہ سرکاری دورے پر سعودی دارالحکومت ریاض پہنچ رہے ہیں۔ ان کے اس دورے کے دوران ہی وہاں چین اور خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کا اجلاس بھی ہوگا۔ چینی صدر کے سعودی عرب کے ممکنہ دورے کی باتیں پچھلے کئی مہینوں سے گردش کر رہی ہیں۔ تاہم سعودی عرب اور چین دونوں حکومتوں نے اب تک اس کی باضابطہ تصدیق نہیں کی ہے۔سعودی حکومت نے مجوزہ سمٹ کی رپورٹنگ کے لیے نامہ نگاروں کو گزشتہ ہفتے رجسٹریشن فارم بھیجے تھے لیکن اس میں کانفرنس کی تاریخ درج نہیں تھی۔خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے بھی شی جن پنگ کے مجوزہ دورے کی تصدیق کی ہے۔ تاہم کہا کہ چینی صدر کے دورے اور اس کے ایجنڈے کے متعلق ان کے سوالات کا سعودی حکومت نے کوئی جواب نہیں دیا۔شی جن پنگ کا دورہ ایسے وقت ہو رہا ہے جب امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات کشیدہ ہیں، عالمی توانائی مارکیٹ میں غیر یقینی کی صورت حال ہے اور واشنگٹن مشرق وسطی میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرات سے خاصا فکرمند ہے۔امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تیل کی پیداوار کے معاملے پر اکتوبر میں اس وقت کافی گرما گرمی پیدا ہو گئی تھی جب سعودی قیادت میں تیل پیداکرنے والے ملکوں کی تنظیم اوپیک نے قیمتوں کو مستحکم کرنے کی کوشش کے تحت تیل کی پیداوار میں یومیہ 20لاکھ بیرل کی کمی کردی تھی۔ یہ فیصلہ امریکہ کی جانب سے سخت اعتراض کے باوجود کیا گیا تھا۔سعودی عرب چین کے ساتھ اپنے اقتصادی تعلقات کو مزید مستحکم کر رہا ہے۔ گوکہ روس کم قیمت کی وجہ سے چین کو پہلے کے مقابلے زیادہ مقدارمیں تیل سپلائی کر رہا ہے تاہم سعودی عرب اب بھی بیجنگ کو تیل سپلائی کرنے میں سر فہرست ہے۔بیجنگ تجارت کے لئے امریکی ڈالر کی جگہ اپنی کرنسی یوان کے استعمال کے لئے بھی کوشش کر رہا ہے۔ ریاض واشنگٹن کے ساتھ بڑھتی کشیدگی کے مدنظر ڈالر کے بجائے دوسری کرنسی میں تیل کی تجارت کرنے کی دھمکی دے چکا ہے۔ سعودی عرب میں تعینات سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ چینی صدر شی جن پنگ کے اعزاز میں اسی طرح کا شاندار استقبالیہ دیا جائے گا جیسا کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو 2017ء میں ریاض کے دورے کے دوران دیا گیا تھا۔سفارت کاروں کے مطابق اس دورے کے دوران چین اور سعودی عرب کے مابین کئی درجن معاہدوں پر دستخط ہونے کی توقع ہے۔امریکی تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل میں سینیئر فیلو جوناتھن فلٹن کا خیال ہے کہ ولی عہد محمد بن سلمان یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ سعودی عرب بہت سی عالمی طاقتوں کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اور وہ غالباً امریکہ کو بھی یہی اشارہ دے رہے ہیں۔ واشنگٹن کے مرکز برائے سٹریٹیجک اور بین الاقوامی مطالعات میں مشرق وسطی پروگرام کے ڈائریکٹر جون الٹرمین کا تاہم کہنا تھا کہ حالانکہ امریکہ کے مقابلے میں چین کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات بظاہر بڑی تیزی کے ساتھ کافی بڑھتے ہوئے نظر آرہے ہیں لیکن حقیقی تعلقات کے لحاظ سے اس کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔