اہم عالمی سیاسی امور 

یہ خبر خوش آئند ہے کہ روس ہمیں سستا پٹرول اور ڈیزل دے گا،یہ کام بہت پہلے ہو جانا چاہئے تھا پر چلو دید آید درست آید۔وزیراعظم صاحب کی اس بات سے کوئی اختلاف نہیں کر سکتا کہ پون پن بجلی اور شمسی توانائی پر توجہ دی جاتی تو آج ہمارا ایندھن کا بل27 ارب ڈالر نہ ہوتا۔ ایوب خان اس ملک کے وہ واحد حکمران تھے کہ انہوں نے دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس ملک میں ڈیموں کی تعمیر کی طرف خصوصی توجہ دی ان سے پہلے اور ان کے بعد آ نے والے حکمرانوں نے اس بابت سنگین غفلت کا مظاہرہ کیا جس کا خمیازہ آج ہم بھگت رہے ہیں۔واقعی شمسی توانائی اور پانی سے جو بجلی بنتی ہے صرف وہی بجلی اس ملک کا عام آدمی کو سستی پڑے گی اور اس طرف خصوصی توجہ دینا ضروری ہے۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس وقت دنیا میں ترقی یافتہ ممالک کی توجہ توانائی کے نئے ذرائع سے استفادے پر مرکوز ہے اور خاص کر چین نے اس ضمن میں بہت نمایاں پیش رفت کی ہے۔ پاکستان کیلئے یہ ایک زرین موقع ہے کہ وہ چین کے تجربے سے استفادہ کرتے ہوئے ہوا، پانی اور سورج کی روشنی سے بجلی پیداکرنے کے منصوبوں کو پروان چڑھائے اور قدرت کی طرف سے میسر توانائی کے ان سستے ذرائع سے فائدہ اٹھائے ورنہ دوسری صورت میں ترقی اور خوشحالی کا خواب ہمیشہ ایک خواب ہی رہے گا۔ ا ب کچھ جائزہ دیگر عالمی امور کا لیتے ہیں جہاں حال ہی میں امریکی وزارت خارجہ کی جانب سے مذہبی آزادی کے حوالے سے جو رپورٹ جاری ہوئی ہے وہ غیر حقیقی اور تعصب پر مبنی ہے۔ پاکستان کو اس حوالے سے بلیک لسٹ میں ڈالا گیا ہے حالانکہ پاکستان میں مذہبی اقلیتیوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس رپورٹ میں بھارت کا ذکر ہی نہیں کہ جہاں مذہبی آزادی کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ اس حقیقت کو اقوام متحدہ میں اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے اور بیرونی ممالک میں ہمارے سفیر بھی اس بات کو ان ممالک کے میڈیا میں اُجا گر کریں کہ جہاں وہ تعینات ہیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے۔ امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کے حوالے سے دوغلی پالیسی اپنائے رکھی ہے اور ایک طرف وہ یہ ڈھنڈورا بھی پیٹتاہے کہ پاکستان اس کا قریبی دوست ملک ہے اور ساتھ ہی اس پر مختلف قسم کی پابندیاں بھی عائد کرتا رہا ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اس وقت جس طرح بھارت میں جاری ہیں اس پر عالمی انسانی حقوق کے ادارے کافی ناراضگی کا اظہار کرچکے ہیں اور بھار ت کو ان ممالک میں شامل رکھا ہے جہاں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ مگر امریکہ سمیت وہ ممالک جو اس وقت عالمی سطح پر اثر رسوخ رکھتے ہیں وہ بھارت کے ساتھ اپنے معاشی تعلقات کو زیادہ ترجیح دے رہے ہیں اوربھارت کے انسانی حقوق کے بدترین ریکارڈ پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔اب وقت آگیا ہے عالمی طاقتیں ان مالی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بھارت کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ریکارڈ کو مد نظر رکھتے ہوئے اس پر اقتصادی پابندیاں عائد کریں۔