سہمی سہمی دھوپ

سردی آہستہ آہستہ اپنے آخری نشانے کی طرف بڑھ رہی ہے۔دن کو سورج اس طرح نکلتا ہے جیسے کوئی ضعیف آدمی لاٹھی ٹیکتا ہوا کسی چمن میں تراشی ہوئی پگڈنڈی پر لڑکھڑاتا ہوا چل رہا ہو۔ سورج کی روشنی ڈری ڈری ہوئی اور زرد چادر میں اپنی کرنوں کو لپیٹے چوری چھپے درختوں اور کہیں اونچے گھروں کی دیواروں کے پیچھے سے گزرنا چاہتی ہے۔جیسے انسان کی عمر اس کی پیٹھ پیچھے پولے پولے بلی جیسے پنجوں کے ساتھ گزررہی ہو۔آج کل دن کے وقت دھوپ میں اتنی تپڑنہیں ہوتی۔بعض چھتوں پر سورج غروب سے گھنٹہ بھر پہلے ہی یہ سنہری شعاعیں کمزور پڑ جاتی ہیں او ریوں محسوس ہوتا ہے جیسے سورج ڈوب چلاہو۔وہ شعر یاد آنے لگا ہے ”وداعِ یار کا منظر نہیں یاد فراز۔ بس ایک ڈوبتا سورج میری نظر میں رہا۔ کسی کو گھرسے نکلتے ہی مل گئی منزل۔ کوئی ہماری طرح عمر بھر سفر میں رہا“۔ سورج کا سفر ہے کبھی دھوپ کبھی چھاؤں کا کھیل ہے۔یہی سفر گرمی میں بھی جاری رہتا ہے اور سورج کی یلغار گرمی میں کام کرجاتی ہیں۔ لوگ اس کی روشنی کی چھپر چھایا سے دور بھاگتے ہیں۔مگر اب یخی کی ا س رُت میں سورج کے پہلو میں بیٹھنا چاہتے ہیں دن کو روشنی میں پھیکی پھیکی دھوپ بھی جسم پر شعاعوں کے وہ تابڑتوڑحملے کرنے سے قاصر ہوتی ہے۔پھر سردی جوں جوں بڑھ رہی ہے ہمارا تو انحصار سورج ہی پرہے۔مگر سورج بھی تپش کی ایک حد کوکراس نہیں کر تا۔شام گئے تو سردی اتنی بڑھ جاتی ہے کہ جسم ٹھٹھرنے لگتے ہیں۔ رات کو بستر میں جا گھسو تو پھر نکلنے کو جی نہیں کرتا۔بلکہ گھرکا کوئی فرد بات کرے تو رضائی کی کھڑکی میں سے دیکھ کر اس کو جواب دیتے ہیں۔کیونکہ گیس ہے نہیں چولھا اندر کمرے میں لا نہیں سکتے۔کیونکہ بچوں کے گھروں میں تو ہر شئے کی احتیاط کرنا پڑتی ہے۔پھرکوئلہ اور لکڑی سے جلائی گئی آگ یہ خطرناک کھیل ہے۔اس سے دور ہی رہیں تواچھا ہے۔پھر وہ گھر بچوں کاہو اور شرارتی بچے وہاں رہائش رکھتے ہوں تو بچے تو کھلے عام اپنی جان کے دشمن اور باقی گھر والوں کی زندگی کے بھی بیری ہوتے ہیں۔ابھی تو ہم نے تین تین کوٹیاں پہنناشروع کر دی ہیں۔کیونکہ بوڑھی ہڈیاں ہیں اور گزری عمر کا گوشت پوست اور پٹھے ہیں۔ایسے میں کمزوری غالب آ ہی جاتی ہے۔ابھی اس سال کا آخری مہینہ سٹارٹ ہوا ہے اور اس کے بعد جنوری کے بھی تیس دنوں میں یہی سردی کاکھیل جاری رہے گا۔ پھرکہیں مارچ آئے تو موسم کی خوشگواری تابندہ ہوکر پائندہ اور پھل پھول پودوں میں زندہ ہو۔رات کو جانے یہ سموگ ہے کہ دھند ہے مگر شام کے بعد صبح تک جب تک کہ سورج اپنا انتظام سنبھال نہ لے جاری رہتی ہے۔روشنی میں دھند بھاگ جاتی ہے سورج اس کا پیچھا کرتا ہے مگر شام سمے جب سورج کی روشنی بھی اس کے تعاقب میں تھک ہار کر سانس کے پھول جانے سے رات کو آرام کی غرض سے آشیانہ مغرب میں سے اپنے انڈے سرِ آسمان بکھیر دیتی ہے تو یہی دھند پھر سے اپنا راج قائم کر دیتی ہے۔بچوں کو تو خوب نمونیا ہورہا ہے۔کیونکہ ان کو تو اپنی جان کی پروا نہیں ہوتی۔مگر حیرت ہے ان ماں باپ پر جن کو ان بچوں کی خود بھی حفاظت مقصود نہیں ہوتی۔بچے سنگل قمیض میں گھوم رہے ہیں اور یہ اس کے اکہرے کُرتے کی طرف دھیان نہیں کرتے کہ اس کو یہ تک کہہ دیں کہ گریبان تو بند کرو یا بچے کو خو داپنی طرف کھینچ کر اس کی قمیض کے بٹن بند کریں۔ مگر ماں باپ بھی کتنا خیال رکھیں گے۔یہ امی ابا کی نگاہوں سے جوں اوجھل ہوتے ہیں تو گلی میں گھوم کر دوڑ کر جسم گرم ہوتا ہے گریبان کے بٹنوں کے کھل جانے کی طرف سے خیال گم کر دیتے ہیں۔سڑکوں پر دیر سے دکانیں بند کرنے والے دکاندار اپنی دکان کے باہرٹاٹکی میں لکڑی کے ٹکرے اور کاٹنوں کے گتے لا کر آگ جلاتے ہیں اوررات گئے اس پرہاتھ تاپتے ہیں۔حالانکہ اس سے سردی کی شدت میں کوئی کمی نہیں آتی۔مگراتناتوہوتا ہے کہ انھیں ایک نفسیاتی ٹکور ہونے لگتی ہے کہ چونکہ ہمارے ہاتھ گرم ہوگئے ہیں اس لئے ہمیں اب سردی کم لگ رہی ہے۔کیونکہ پورے جسم میں ہاتھ اور چہرہ پرکوئی نقاب نہیں ہوتا ورنہ تو پورا جسم پہنے ہوئے لباس میں لپٹاہوتا ہے۔مگر بعض کوسردی اس کیفیت میں اور بستر میں لحاف لے کر بھی زیادہ لگتی ہے۔ان کا بس چلے تو گیس کا چولھا جلا کر چوبیس گھنٹے اس پر ہاتھ گرم کرتے رہیں۔کیونکہ آگ 
پرہاتھ گرم کرنا بھی سردیوں میں ایک نشہ کی سی کیفیت ہے۔بیچ میدان کے اگر بیٹھے ہوں اور پاس کوئی عمارت نہ ہو کھیت کھلیان کاسا ماحول ہو اورساتھ دیوار و دور نہ ہوں تو یہ دھوپ دن بھر کام کرتی ہے۔مگر یہ اندر سے خالی دھوپ کی کرنیں جسم و جاں کواپنی تپش سے ٹکور دینے سے پورے طور پر نہیں کچھ حد تک قاصر ہیں۔کیونکہ سورج ان دنوں نکلتا ہے شرماتاہوا جنوب کی سمت کی آدھی کمان کاراستہ جلدی جلدی طے کرتا ہے۔اگر اس کا سفر مشرق سے عین آسمان کے بیچ میں سروں کے اوپرسے دن کو بارہ بجے ہوکر گزرنا ہو تو پھرکہیں اس کی لمبائی زیادہ ہو اور یہ ماحول کو گرم کرنے کے قابل ہو۔مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ سورج ہے کہ ستارے ہیں ِ چاند ہے یا انسان ہے سب کے اپنے اپنے سفرہیں جو وہ طے کر رہے ہیں۔اسی طرح ہو رہا ہے او ریونہی ہوتا رہے گا۔سردی اور گرمی کی صبحیں اور شامیں آئیں گی اپنا فرض نبھائیں گی اور جائیں گی۔