اہم سوال

ہمارے کئی قارہین ہم سے پوچھتے کہ ہمارے  وہ ارباب بست و کشاد کم از کم یہ تو کر سکتے تھے کہ  انہوں نے ملک کے ہر شہر میں سرکلر ریلوے کا ایک جال بچھا دیا ہوتا تاکہ عام آدمی کی شہروں کے اندر آمدورفت  کا مسئلہ حل ہو گیا ہوتا اور اسے ٹیکسیوں اور رکشوں کے خرچے بر داشت نہ کرنے پڑتے اسی طرح انہوں نے ملک کے اندر مختلف شہروں کو ریلوے کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ کیوں نہ جوڑااور انہیں روڈ  ٹرانسپورٹ کے رحم و کرم پر کیوں چھوڑا۔ ریلوے کے ایک مربوط نظام سے اس ملک کی ایک اچھی خاصی توانائی بچائی جا سکتی تھی سرمایہ دار تو اپنی ٹرانسپورٹ کیلے مارکیٹ سے گاڑی خرید سکتا ہے۔ پر ایک مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والا کیا کرے۔ بنک سے قرضہ لے کر اپنی یہ ضرورت پوری کرے اور پھر زندگی بھر اپنی محدود آمدنی سے کٹوتی کر کے قرضے اتارے اور پھر ذرا اس بات پر بھی غور کیجئے کہ ملک میں جتنی زیادہ گاڑیاں ہوتی ہیں  پٹرول اور ڈیزل کا اتنا زیادہ خرچہ قوم کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی حکمران نے ایک عام آدمی کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے بارے میں نہیں سوچا کیا آپ نے کبھی اس بات پر بھی سوچا ہے کہ پیسوں والے اپنے بچوں کو قیمتی گاڑیوں میں سکول بھیجتے ہیں جبکہ مڈل کلاس اور مالی طور پر کمزور والدین یا ان کو سائیکل پر سکول کے جاتے ہیں یا موٹر سائیکل پر بچوں کی یہ عمر سیکھنے کی ہوتی ہے، جب ایک بچہ یہ دیکھتا ہے کی اس کا کوئی کلاس فیلو قیمتی گاڑی میں سکول آتا ہے اور سائکل پر آتاہے تو وہ احساس کمتری کا شکارہو جاتا ہے۔ چنانچہ دنیا میں جو دور اندیش اور غریب پرور حکمران ہیں وہ صرف ان لوگوں کو سکول چلانے کی اجازت  دیتے ہیں کہ جو لازمی طور پر بچوں کی آمدو رفت کیلے سکول کی بسوں کا بندوبست کر سکیں اور ان سکولوں میں داخلہ تب ہی ملتا ہے کہ جب ان کے والدین اس بات پر راضی ہوں کہ وہ اپنے بچوں کو سکول کی بس میں سکول بجھوایا کریں گے ان باریکیوں سے  ہم ناآشنا ہیں۔دیکھا جائے تو معاشرے میں اونچ نیچ کا خاتمہ بہت سے مسائل کاحل ہے اور اس کی موجودگی ڈھیر سارے  مسائل کا باعث بنتی ہے۔اس لئے تو جن ممالک نے اپنے معاشروں کو ایسے خطوط پر استوار کیا ہے کہ جہاں بنیادی  یعنی تعلیم و صحت کی سہولیات سب کو یکساں معیار کے ساتھ میسر ہوں تو ان ممالک نے دن دگنی رات چوگنی ترقی کی ہے۔ اس سلسلے میں چین کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ جہاں زندگی کی بنیادی سہولیات کی فراہمی براہ راست حکومت کے کنٹرول میں ہے اور وہ ایسی دانشمندانہ پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں کہ تھوڑے عرصے میں انہوں نے ملک کی ایک بڑی آبادی کو غربت کی لکیر نیچے زندگی بسر کرنے کی مشکل سے نکال لیا ہے جس پر پوری دنیا حیران ہے۔ یہ وجہ ہے کہ اس وقت چین کو عالمی منظر نامے پر ایک ممتاز مقام اور اسے سپر پاور کی حیثیت حاصل ہے۔افریقہ سے لے کر ایشیاء اور یورپ تک تمام ممالک کے ساتھ چین کے تجارتی تعلقات قائم ہیں اورامریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی جیسے ترقی یافتہ ممالک بھی چین کی بالادستی کو قبول کرنے لگے ہیں اور ان ممالک کے ساتھ تجارت میں چین کا پلڑا بھاری ہے۔