انسداد پولیو: اُمید و نااُمیدی

پولیو کے محاذ پر برسوں کی مایوس کن کارکردگی کے بعد بالآخر پاکستان بچوں کو تاحیات معذور کرنے والے مرض کے خاتمے کے قریب پہنچ گیا ہے اور یہ وہ مقام ہے جہاں امید کی کرن پیدا ہوئی ہے اور یہ پیشرفت یونیسیف نے بھی تسلیم کی ہے جس کا کہنا ہے کہ ”پاکستان میں انسداد پولیو کوششیں درست سمت میں آگے بڑھ رہی ہیں اور یہی وہ اعتراف ہے جس کی وجہ سے انسداد پولیو کی امید پیدا ہوئی ہے کہ سال 2023ء کے آخر تک پاکستان سے پولیو مرض ختم ہو جائے گا۔ پولیو وائرس بنیادی طور پر پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کے اعصابی نظام کو متاثر کرتا ہے اور ایک ایسی خاص قسم کی ’فالج‘ پیدا کرتا ہے جس کے باعث بعض صورتوں میں نہ صرف موت ہوتی ہے بلکہ پولیو کے اکثریت مریض ہمیشہ کے لئے معذور ہو جاتے ہیں۔ پولیو کا مرض اِس قدر جلد اثر کرتا ہے کہ کسی بچے کے ایک مرتبہ متاثر ہونے کے بعد‘ وہ بچہ تقریباً لاعلاج ہوتا ہے اور اِس سے بچاؤ کی ویکسینیشن صرف متعلقہ وائرس کے حملے سے پہلے ہی موثر ہوتی ہے۔ پاکستان میں بچوں کو اس بیماری سے بچانا انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ہر سال ملک کی آبادی بڑھ رہی ہے اور لاکھوں نوزائیدہ بچوں کا اضافہ ہو رہا ہے اگرچہ پاکستان گزشتہ کئی سالوں سے پولیو وائرس کے کنٹرول کی کوششیں کر رہا ہے لیکن تاحال اس مرض کا مکمل خاتمہ نہیں ہو سکا ہے۔ درحقیقت یہ بیماری کئی مرتبہ ختم ہونے کے قریب پہنچی لیکن ذرا سی لاپرواہی کے باعث پھر سے پھیل جاتی ہے۔ سال دوہزاراکیس کے دوران پولیو کا صرف ایک کیس رپورٹ ہوا لیکن رواں سال (دوہزاربائیس) میں نئے پولیو کیسز میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اپریل سے اب تک (نومبر دوہزاربائیس) بیس نئے پولیو کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔ حکومت پاکستان کو جنگی بنیادوں پر پولیو سے نمٹنے کی ضرورت ہے‘ چاہے یونیسیف کتنی ہی پر اُمید کیوں نہ ہو۔ حکام کو ہر بچے تک پہنچنے کی ضرورت ہے۔ ایسا نہ کرنے سے تمام بچوں کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ پولیو ویکسین کا انتظام زندگی بچانے والی مشق ہے اور اس بیماری سے خود کافی حد تک روک تھام کی جاسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال تین لاکھ سے زیادہ ہیلتھ ورکرز ویکسین کی خوراکیں دینے کے لئے ملک کے دور دراز علاقوں کا بھی رخ کرتے ہیں لیکن ان کی حفاظت مسئلہ بنا ہوا ہے جو بڑا چیلنج ہے اور اِس سے صرف حکومت اور ریاستی ادارے ہی نمٹ سکتے ہیں۔ پولیو ٹیموں اور ان کے محافظوں پر حملوں نے وائرس کو مکمل طور پر ختم کرنے کی کوششوں کو متاثر کیا ہے۔ پاکستان کے کچھ علاقوں میں بالخصوص انسداد پولیو کارکنوں پر حملے کئے جاتے ہیں لیکن پھر بھی پولیو ٹیموں اور ان کے محافظوں کی ہمت قابل تعریف ہے۔ قومی حفاظتی ٹیکوں کا پروگرام جو گزشتہ کئی سالوں سے کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے اس کے شاندار نتائج سامنے آئے ہیں لیکن پھر بھی پولیو سے پاک مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ اس سال کوششوں کو مزید بڑھایا گیا ہے اور یہ ایک ضرورت بھی ہے کیونکہ پاکستان نے غیر معمولی پیمانے پر خشک سالی اور سیلاب کا سامنا کیا ہے‘ جس سے تمام صوبوں میں لاکھوں افراد بے گھر ہوئے ہیں۔ قدرتی آفات کی شدت کے باعث لاکھوں بچے پولیو اور دیگر وباؤں سے بچنے کی ویکسینز لینے سے محروم رہ جاتے ہیں اور اُن کی زندگیاں خطرے سے دوچار رہتی ہیں۔ صحت کی بنیادی سہولیات کی عدم موجودگی میں ملک کے ہر بچے تک پہنچنا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ آفت زدہ اضلاع کی تعداد زیادہ ہے اور اس سے بھی زیادہ کمزور بچوں کی تعداد ہے جنہیں صحت کا شعبہ حفاظتی ٹیکوں کی فراہمی میں ناکام رہا ہے۔ یونیسیف کی پیش گوئی اور پاکستان کی پولیو سے نجات کی اُمید اپنی جگہ درست ہے لیکن اطمینان تبھی ہوگا جب پولیو سے چھٹکارا پا لیا جائے گا اور اِس ہدف کے قریب پہنچنے پر زیادہ محنت کی ضرورت ہے۔