میں نے راستے میں جاتے ہوئے مختلف ریڑھی والوں کو دیکھا مگر ٹریفک کی ہنگامہ خیزی میں رکنے کی پوزیشن میں نہ تھا۔جرابیں ضروری نہ تھیں۔اگر جرابیں نہ بھی خریدتا تو گھر چلا جاتا۔ویسے ہی مجھے خیال آیا کہ سردی کے بڑھ جانے کے ساتھ میری جرابیں جوپتلی تھیں انھوں نے کام چھوڑ دیا ہے۔ویسے بھی ہماری عمر کے بابوں کو ٹھنڈ زیادہ لگتی ہے اور پھر ہمیں تو ہر وقت دھوپ تلے بیٹھنا زیادہ اچھا لگتا ہے۔اس لئے ذرا سورج کی کرنوں کی گرفت سے ایک طرف ہوں تو جھپٹ کر کوٹی پہن لیتے ہیں اور پھر تھوڑی دیرکے بعد ایک اور کوٹی جسم پر کھینچ تان کر چڑھا لیتے ہیں۔ہمارے ایک دوست ہیں ایک بارمیں نے ان کوسردی کی شکایت کی تھی توانھوں نے احتیاط کا درس دیتے ہوئے ہمیں اپنے جسم پر کُرتے کے تلے پانچ سویٹروں کی رونمائی کروائی۔ مگر مجال ہے کہ اتنی تعداد میں سویٹر پہن کر وہ موٹے لگتے ہوں۔پھر شاید سویٹر پتلے او ربنیان جیسے ہوں گے۔یہاں ہم ہیں قمیض پہن کر بھی لگتا کہ ایک وقت میں تین ولیموں کے کھانے کھا کر آئے ہیں۔پھر اس پر اگر دوکوٹیاں بھی پہنی ہوں تو ان پہناووں پر اپناآپ ہی برا لگتا ہے۔۔ٹی وی کی عمارت میں بلڈڈونیشن کے حوالے سے لائیوو پروگرام میں شرکت کرناتھی۔ اوپر جاتے ہوئے وہاں بڑے اور قد آدم آئینے کے سامنے سے گزرے تو معلوم ہوا کہ اپنا وزن بہت زیادہ ہے۔شاید بہت عرصہ کے بعد آئینہ دیکھاتھا۔سوجا ہوا منہ اورمزید آگے جاتی ہوئی توند دیکھی تو اپنے چہرے پر پریشانی کے آثار بھی دیکھ لئے۔سوچا ملک بھر کے ناظرین آ ج ہمیں دیکھیں گے تو کیا سوچیں گے۔مگرخیال آیا بعض آئینے چہرے کو بڑا کر کے دکھاتے ہیں۔چونکہ یہ شو بز کی دنیا گلیمر کا جہان ہے۔انھوں نے آئینے جان بوجھ کر ایسے لگارکھے ہیں کہ بندہ اپنے آپ کو خوبصورت اور سڈول جسم والا سمجھے۔مگر یہا ں تو او رعالم تھا۔ اس بات سے بھی تو دھیان بٹ گیا کہ خود ہمارے گھر میں جو چھوٹا آئینہ ہے وہ دو اطراف سے اگلے کی شکل دکھلاتا ہے۔ ایک طرف صحیح اور ٹھیک منہ نظر آتا۔پھرجو اس کو موڑ دو تو وہی چہرہ تین گنا بڑا ہو کر نظر آتا ہے۔شاید انھوں نے یہی سائنس یہاں بھی اختیار کررکھی ہو۔پھر سوچا اگریہ موٹاپے کی بات درست ہے اورآئینہ سچ بولتا ہے یااگرجھوٹ بھی بولتاہے تو بھی چل جائے گا۔کیونکہ آج کل آئینے جھوٹ بولنے لگے ہیں۔ہوتا ہے کچھ ہے دکھلا تے کچھ ہیں۔سو اگرہم نے خون دینے کے بارے پروگرام میں حصہ لینا ہے تو اچھا ہے کہ ناظرین ہمیں موٹاہی سمجھیں۔ان کومعلوم ہوجائے کہ بندہ اگر خون دیناچاہے تواس سے اس کے جسم پرکوئی فرق نہیں پڑتا۔یہ دراصل دنیا بھر میں خون دینے والوں کا دن منایا جا رہا تھا سوہم بھی وہاں موجود تھے۔ہم سے بھی سب لائیوو پوچھا کئے۔ہم تو چپ نہیں رہے ہم ہنس دیئے۔کسی نے سوال کیاخون دینے سے کمزوری تو نہیں ہوتی۔ہم نے کہا اس وقت آپ مجھے دیکھ رہے ہیں۔میں صحت مند ہواور موٹا تازہ گورا چٹاہوں۔اگر ایک سوچالیس بارخون دے کر میں شکر ہے کہ کمزورنہیں ہواتو آپ صرف ایک بار اگرخون دیں تو کمزورکیوں ہوں گے۔مگر چونکہ میں نیچے سے اوپر والی منزل میں لائیوو پروگرام میں آیاتو وہی نابکارآئینہ دیکھ کر آیاتھا۔ اسی لئے تو میں وہاں ایک منٹ ٹھہر کر اپنے آپ کومشکوک نگاہوں سے دیکھ رہاتھا۔پھر ہم نے اس کانٹے کو دل سے نکالنے کوگھرآکر پھرمحلے میں حجام کی دکان پرایک لمحہ کھڑے ہو کر اپنے آپ کو دوبارہ آنکھوں آنکھوں میں سکین کر کے دیکھا۔مگر ہمیں تو وہا ں اور گھر کے اپنے آئینوں میں کہیں بھی موٹاپے کے آثار نظر نہ آئے۔ اب تک اسی شش وپنج کا شکار ہیں کہ کون سا آئینہ سچ بولتا ہے اورکون سا شیشہ جھوٹ بولنے لگاہے‘نام بھی داداجان نے ایسا رکھا کہ صرف نام کے مطلب ہی سے خوبصورتی اوررعنائی کی بوچھاڑ ہونے لگتی ہے ویسے ایک بات کہوں آئینہ تودنیاکاہر آدمی روز دیکھتاہے۔پھر آئینہ اتنا چالا ک ہے کہ ہر ایک کو کہتا ہے کہ تم خوبصورت ہو۔خواہ وہ ہماری طرح ہو۔آئینے کی یہ پریشاں نظری کا لپکا سمجھ میں نہیں آتا۔