جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے 

ہم اپنے اس کالم میں ایک عرصے سے تحریر کر رہے ہیں کہ خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع خصوصا ًبنوں لکی اور کرک کیلئے سیف اللہ فیملی کی سیاسی ترقیاتی اور سماجی سرگرمیاں اور کام بے مثال ہیں اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انور سیف اللہ خان ہوں یا کہ سلیم سیف اللہ اور یا پھر ہمایوں سیف اللہ خان ان سب براداران کا کبھی بھی سیاست کے میدان میں دامن داغدار نہیں رہا انہوں نے اپنی جیب سے خرچ کر کے عوام کی خدمت کی کبھی بھی کسی غیر قانونی کام میں ملوث نہیں ہوئے اور جو وزارت بھی ان کو سونپی گئی اس میں انہوں نے دیانتداری سے کام کیا یہ بد قسمتی سے اس ملک کا سیاسی کلچر بن چکا ہے کہ کئے لوگ حسد اور سیاسی رقابت میں اپنے سیاسی حریفوں پر بے بنیاد اور جھوٹے الزامات لگا کر انہیں عوام کی نظروں میں گرانے کی کوشش کرتے ہیں سیف اللہ براداران کے خلاف بھی ماضی میں ان کے سیاسی حریفوں نے بعض بے بنیاد الزام لگائے تھے پر اگلے روز نیب کے ایک اعلان کے مطابق وہ دروغ بیانی پر مبنی تھے ان میں کوئی صداقت نہ تھی اور ان پر لگائے گئے تمام الزامات کو جھوٹا قرار دے کر انہیں بے گناہ قرار دے دیا گیا ہے جو اس حقیقت کا بیّن ثبوت ہے کہ یہ سیاسی شخصیات سیاسی طور بالکل داغدار نہیں اور ماضی میں ایوان اقتدار میں رہ کر بھی انہوں نے اپنا دامن ہر قسم کی کرپشن سے بچا کر رکھا جو یقینا بہت بڑی بات ہے اب بات ہوجائے کچھ بین الاقوامی امو رکی۔ اقوام متحدہ کا یہ کہنا عجیب لگتا ہے کہ یوکرینی انفراسٹرکچر پر روسی حملوں کے سبب محصور شہریوں کو درپیش ضرورتوں کے حوالے سے غیر معمولی صورت حال پیدا ہو گئی ہے کیونکہ اس عالمی ادارے کی تو ذمہ داری بنتی ہے کہ جنگ کو شروع ہونے سے پہلے یہ تنازعات کو حل کرے تاہم یہاں پر اس نے اپنا یہ کردار ادا نہیں کیا اور یہ ثابت کردیا کہ وہ امریکہ کی مرضی کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کامجازنہیں۔ عالمی ادارے نے ایک بار پھر اس جنگ کو احمقانہ قرار دیا۔اقوام متحدہ کے انسانی امور کے سربراہ مارٹن گریفتھس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بتایا کہ انتہائی سرد موسم کے دوران بھی یوکرین کے توانائی کے انفرااسٹرکچر پر روس کے مسلسل حملوں نے یوکرینی عوام کی بنیادی ضرورتوں کے حوالے سے غیر معمولی صورت حال پیدا کر دی ہے۔مارٹن گریفتھس نے گزشتہ روز سلامتی کونسل کے اراکین کو 24 فروری کو یوکرین پر روسی حملے کے بعد سے وہاں ہونے والی اموات، لوگوں کی نقل مکانی اور درپیش مصائب کی تفصیلات بتائیں۔انہوں نے کہا کہ اہم تنصیبات اور بنیادی ڈھانچوں پرماسکو کے حالیہ حملوں نے صورت حال مزید ابتر کردی ہے اور لاکھوں افراد حرارت، بجلی اور پانی تک رسائی سے محروم ہوگئے ہیں۔ جوکہ جنگ کی وجہ سے پیدا شدہ انسانی بحران کا ایک اور خطرناک پہلو ہے۔گریفتھس کا کہنا تھا کہ 14ملین سے زیادہ افراد کو یوکرین سے نقل مکانی کے لئے مجبور ہونا پڑا ہے۔ ان میں 7.8 ملین وہ افراد شامل ہیں جنہوں نے یورپ میں مختلف ملکوں میں پناہ لے رکھی ہے۔انہوں نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق دفتر کے اعداد و شمار کے حوالے سے بتایا کہ یکم دسمبر تک کی رپورٹ کے مطابق اس جنگ میں مجموعی طور پر 17023 افراد ہلاک ہوچکے ہیں، جن میں 419 بچے شامل ہیں۔ تاہم کہا کہ ہلاکتوں کی حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔گریفتھس نے بتایا کہ کم از کم 715 صحت کے مراکز پر حملے کیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ شہری انفراسٹرکچر پر حملوں کے نتیجے میں لوگ صحت خدمات اور بچے تعلیم سے محروم ہوگئے ہیں۔ یوکرین میں آج شہریوں کا وجود حملے کی زد میں ہے۔خیال رہے کہ فروری میں یوکرین پر روس کے حملے کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی درجنوں میٹینگیں ہوچکی ہیں۔تاہم ان کا نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلا اس کا واضح مطلب ہے کہ اقوام متحدہ باہمی تنازعات کے حل کرنے میں خاطر خواہ کامیاب نہیں اس حوالے سے اصلاحات کی ضرورت ہے۔