مجھے وہ کوٹی بہت اچھی لگی۔ کباڑ والے نے اچھی اچھی کوٹیاں نمایاں کر رکھی ہوتی ہیں۔ اس نے وہ کوٹی ہینگر میں ڈال کر پاس بجلی کے قینچی والے لوہے کے کھمبے پر لٹکا رکھی تھی۔ وہ روز یہاں ریڑھی لگا تا ہے۔پھر عرصہ دراز ہوا سڑک کے کنارے اس کی یہی جگہ ہے۔بلکہ ریڑھی نہیں سمجھو دو ہتھ ریڑیوں کی پوری دکان سجارکھی ہے۔پاس جو ٹرانسفارمر کے دو کھمبے ہیں وہ تو کسی شاپنگ مال کے اندر بڑی دکان کے باہر جیسے انسانی مجسموں کا کام دے رہے تھے۔ وہاں اس نے گاہکوں کو اپنی طرف کھینچنے کے لئے ان بتوں کے اوپرخوبصورت سویٹر لگا رکھے تھے۔پھر سنا ہے کہ بڑے دکاندار بھی اس سے اچھا مال ارزاں نرخوں پر لے جا کر گراں تر کر کے بیچتے ہیں۔میں اس کوٹی کو دیکھ کر رکا۔ بغیر جانچ پڑتال کئے اس سے قیمت پوچھی اس نے تین سو روپے بولا۔ میں نے جھٹ سے تین سے روپے نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھ دیئے۔ وہ سمجھا تھا کہ بیوقوف گاہک ہے کوٹی کو چیک ہی نہیں کیا او رنہ ہی اس نے قیمت کے بارے میں بھاؤ تاؤ کرنا مناسب سمجھا۔ اس لئے اسے میری نادانی پر رحم آیا اور مجھ کو پچاس روپے رعایت کر کے واپس کر دیئے۔میں بھی خوش ہوا۔وہ مجھے وقوف سے عاری سمجھا او رمیں اس کو نادان سمجھا۔دونوں اپنی اپنی جگہ خوش تھے۔میں اس لئے خوش تھا کہ یہ کوٹی اگر کسی بڑی دکان پر ہوتی تو تین ہزار سے کم کی تو ہو نہیں سکتی۔پلاسٹک کے کاغذ میں رکھ کر بیچو تومہنگی فروخت ہو۔اتنی خوبصورت اور دیدہ زیب اور مکمل اور کسی طرف سے کباڑ کی تو لگ ہی نہیں رہی تھی۔قریب کر کے دیکھادل چاہا کہ ابھی اپنی پہنی ہوئی کوٹی اتار کر یہ خوبصورت رنگ میں سویٹر والی کوٹی خودپہن لوں۔ مگر مجبوری تھی کہ یہ زنانہ تھی۔دل نے کہا اچھی چیز ہے لے لو گھر میں کسی نہ کسی پرآجائے گی۔پھر مجھے اس پر بھی جلدی کرناپڑی کہ میرے پہلو ایک اور گاہک میرے بعدآ کراسی کوٹی پرنظریں جمائے کھڑا تھا۔مجھے اندیشہ تھا کہ یہ اچھا دانہ ہے ہاتھ سے نکل جائے گا۔سو میں نے مناسب سمجھا کہ اس کوہتھیالیا جائے۔ویسے کباڑ کاذکر کرتے ہوئے مجھے کوئی لاج محسوس نہیں ہو رہی۔آج کل کسی کو بھی اس پر شرم محسوس نہیں ہوتی کہ یہ اس نے کباڑمیں سے خریدی ہے۔ وہ اس لئے کہ کباڑ کے مال کی دکانوں پرسے جب کینٹ کے بڑے دکاندارمال لے جاتے ہیں۔پھر میں نے خود بڑے افسروں کوخواتین سمیت کباڑ کی مارکیٹ میں ایک سے دوسری دکان پر گھومتے گھامتے دیکھا ہے تو پھر کاہے کی جھجھک۔پھر جب خود بندہ ا س قابل نہ ہو کہ وہ اچھی دکانوں کارخ کرے تو اس کو بناکسی ہچکچاہٹ کباڑ کا رخ کرناچاہئے۔کباڑ کا مال خریدنا بہت عرصہ ہوا اب معیوب نہیں رہا۔ بعض تو ایسی کوٹیاں نایاب سی مل جاتی ہیں کہ لگتاہے بنا کر بغیر پہنے ہمارے ہاں بھیج دیا ہے۔مگر مجھے یہاں اس تحریر میں کوٹیوں سے کام نہیں۔اگرچہ کہ ابتدائیہ لمبا ہوگیا ہے۔مگر میں کچھ اور کہنا چاہتا ہوں۔وہ یہ ہے کہ اس نے جس ہینگرپر کوٹی لٹکارکھی تھی وہ پلاسٹک کانہ تھا بلکہ سٹیل کی طرح کاپتلا ہینگر تھا۔ اس نے ایک چھوڑ کئی کئی سویٹر جووہاں سما سکتے تھے لٹکا رکھے تھے۔جب اس نے ہاتھ اوپرکرکے بجلی کے کھمبے پرسے کوٹی اتارکرمجھے دکھانے کو حوالے کی تومیں نے ہینگر کوانگلیوں میں محسوس کرکے اندازہ لگایا کہ بجلی کے کرنٹ کے حوالے سے یہ خطرناک ہو سکتاہے۔مگر ہم اس کی پروا نہیں کرتے۔اس طرح کے سینکڑوں مناظر روزانہ دیکھنے میں آتے ہیں۔ پورے ملک میں خودعوام کو شعورنہیں کہ بجلی اوراس کا کرنٹ آخر ہوتا کیا ہے۔ اس سلسلے میں سرکاری لوگوں کو مہم چلاناچاہئے۔جس کودیکھو بجلی کی تاروں تک سے کھیل رہا ہے اور لاپرواہی برتتاہے۔بچے گلی میں خاص بجلی کے میٹروں کی لٹکی اورجھولتی ہوئی تاروں کے نیچے کھیل رہے ہوتے ہیں۔