سیاسی مفاہمت کی ضرورت

سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ملک ڈیفالٹ کی طرف جا رہا ہے۔ ملک کو اس وقت سیاسی استحکام کی ضرورت ہے اور سیاسی استحکام ہی ملک میں معاشی استحکام لائے گا اور اس کا صرف ایک ہی طریقہ ہے، عام انتخابات اور یہ صرف پی ٹی آئی کی نہیں بلکہ پورے ملک کی ضرورت ہے۔ان کے بقول اگر اگر موجودہ حکومت الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہیں کرتی تو وہ دسمبر میں پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کر دیں گے۔انہوں نے تمام ارکانِ پارلیمان کو الیکشن کی تیاری کرنے اور حلقوں کا رُخ کرنے کی ہدایت کی۔دوسری طرف مسلم لیگ ن کے رہنماؤں اور وفاقی وزراء نے کہا ہے وہ آئندہ عام انتخابات کی تاریخ پر سابق وزیر اعظم کے ساتھ مشروط اور دھمکی آمیز مذاکرات نہیں کریں گے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے توپاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان صاحب درست کہتے ہیں کہ معاشی استحکام و ترقی کیلئے سیاسی استحکام ضروری ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کی سلامتی، بقا اور معاشی ترقی کیلئے سیاسی استحکام شرط ہے اور اس کیلئے حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان اچھے تعلقات اور مستقبل میں درکار اقدامات پر مفاہمت ضروری ہے۔ دیکھا جائے تو ہمارے سیاسی رویوں میں ایک طرح سے لچک کی کمی مشاہدے میں آرہی ہے  اور ایک دوسرے کے موقف کو سننے اوراس حوالے سے اپنے موقف میں لچک پیدا کرنے کا رویہ کم سے کم ہوتا جارہا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایسے مسائل جو بات چیت کے ذریعے آسانی سے حل ہوسکتے ہیں وہ طول اختیار کرجاتے ہیں اور ان چھوٹے چھوٹے مسائل کی موجودگی میں سیاسی استحکام کا وجود میں آنامشکل ہوجاتاہے۔جہاں تک انتخابات کا معاملہ ہے تو پہلی بات تو یہ ہے کہ انتخابات پر اربوں روپے لگتے ہیں اور پھر موجودہ اسمبلیاں پانچ سال کیلئے منتخب ہوئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ موجودہ معاشی مشکلات کے پیش نظر انتخابات وقت سے پہلے کیوں منعقد کیے جائیں؟دیکھا جائے تو اگر انتخابات قبل از وقت ہوں تو اس میں بھی کئی مہینے لگ سکتے ہیں اور اگر وقت پر ہوں تو بھی مہینوں کی بات ہے۔ اس طرح یہ ممکن ہے کہ دونوں فریقو ں کے درمیان کوئی مفاہمت ہو اور کوئی درمیانہ راست نکل آئے۔مجموعی طور پرجائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ سیاست میں رواداری اور تحمل کی کمی سے ہی سارے مسائل سامنے آرہے ہیں۔میرے خیال میں ملک کے عوام و خواص کیلئے سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ، ہیجان، نفرت، عدم برداشت، بہتان اور مخالفین کی تحقیر پر مبنی  سیاست کسی بھی طرح ملک و قوم کے مفاد میں نہیں۔ہماری سیاسی تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ حزب اختلاف اور حکومت کے درمیان شدید اختلافات کے باوجود مذاکرات کا دروازہ کبھی بند نہیں کیا گیا اور ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر مسائل کا حل نکالنے کے واقعات تسلسل کے ساتھ سامنے آئے ہیں اب بھی یہ کہنا غلط ہوگا کہ موجودہ حالات سے نکلنے کے لئے کوئی راستہ موجود نہیں بلکہ دونوں طرف یعنی حکومتی اتحاد اور مخالف جماعت میں ایسے افراد موجود ہیں جو مفاہمت اور مذاکرات کا فریضہ بخوبی انجام دے سکتے ہیں اور یہ وقت کا تقاضا بھی ہے انتخابات میں اب ویسے بھی جو وقت رہتا ہے دونوں طرف عوام سے رابطے کے سلسلے میں اس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔