عجیب لگتا ہے 

آج کا دن پشاور آوار گی کیلئے وقف تھا اور ذریعہ سفر کچھ میسر نہ تھا سو پیدل ہی اپنا شوق پورا کیا دو چار جگہوں پر مبا رک دینے اور ایک جگہ فاتحہ پڑھنے گیا دوست نے پو چھا تم کہا ں سے اپنے دن کا آغاز کر وگے؟ میں نے کہا قلعہ بالا حصار سے، انہوں نے مجھے بالا حصار کے سامنے گاڑی سے اتار دیا شام کو وہیں سے مجھے لینے کا وعدہ کیا، میں نے سوچا قلعہ بالا حصار پشاور کا جھو مر ہے یہاں میرے جا ننے والے دو افیسر ہیں ان میں سے ایک نہ ایک مو جو د ہو گا آدھ گھنٹہ قلعہ کے اندر لگا کر تا زہ دم ہو جا ؤنگا پھر چوک یاد گار، گھنٹہ گھر اور کریم پورہ کی طرف نکل جا ؤنگا میں نے سو چا تو یا د آیا آخری بار 1976ء میں قلعہ با لا حصار کی سیر کا مو قع ملا تھا جب کپٹن انور بیگ نے مجھے قلعے کی سیر کرائی تھی مسجد کے خطیب ایک بنگا لی عالم دین تھے 46سال بعد قلعے کی سیر کا موقع ملا تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اس کی آرائش اور زیبا ئش کو دیکھ کر عجیب لگتا ہے، فرنٹئیر کور نے جس طرح اس کی حفا ظت کی ہے وہ قا بل تحسین ہے یہ وہ قلعہ ہے جسے پشاور کی پہچان کہا جا تا ہے 630ء میں چینی سیا ح ہیون سانگ نے اس مقا م پر باد شاہ کے محل کا ذکر کیا ہے دسویں صدی میں گندھا را کے راجہ جے پال اور راجہ انند پا ل کا محل اس جگہ واقع تھا محمود غزنوی نے 1001سے 1008ء تک یہاں ہندو راجوں سے مقا بلہ کیا جو شہر کا دفاع کر رہے تھے، شہا ب الدین غوری اور ظہیر الدین با بر نے اس قلعے کا ذکر کیا ہے مغلوں کے دور میں یہ قلعہ درانی خا ندان کا پایہ تخت تھا 1834میں سکھوں نے اس کی تو سیع کا کا م کیا تھا‘1868کے بعد انگریزوں نے کچے گارے کی دیواروں کی جگہ پکی اینٹوں کی دیواریں تعمیر کیں، جواب تک قائم ہیں واقعی عجیب لگتا ہے آثار قدیمہ میں اس کی سب سے اچھی دیکھ بھا ل ہوئی ہے کسی اور جگہ کی ایسی دیکھ بھا ل نہیں ہوئی پشاور شہر میں ایک دن گذار کر گلی کو چوں کی سیر کر کے واقعی عجیب لگتا ہے شہر کا مزاج اور رنگ تبدیل ہو تا ہوا نظر آتا ہے پہلے یہ گوشت کے لئے مشہور تھا اب گوشت کی جگہ دال نے لے لی ہے جہاں گوشت کی کڑا ہی پکتی تھی وہاں لو بیا، ماش اور چنے کی کڑا ہی پکتی ہے شہر یوں کا ذوق تبدیل ہوا ہے گا ہکوں نے دال کو شا ید گوشت پر تر جیح دینا شروع کیا ہے‘ آج یہ حال دیکھ کر عجیب لگتا ہے مجھے یہ دیکھ کر بھی عجیب لگتا ہے کہ شہر میں سیا سی گفتگو سے لو گ اجتنا ب کر تے ہیں اس کی آخر کوئی وجہ تو ہو گی ٹیلی وژن پر ایسے چینل دیکھتے ہیں جن میں جا نوروں، درندوں، پرندوں اور چرندوں کو دکھا یا جا تا ہے،دو چار جگہوں پر اس نئی روش کا ذکر چھڑ گیا تو شہریوں نے کہا ”کان پک گئے ہیں“ یہ بہت بڑا بیان ہے اور یہ بہت بڑی تبدیلی ہے اس تبدیلی کی تو قع نہیں تھی یہ دیکھ کر بہت عجیب لگتا ہے رات ڈھلے دوست نے مجھے قلعہ بالا حصار کے سامنے سے پھر گاڑی میں بٹھا یا ہم نے راستے میں شہر کو ہی مو ضوع گفتگو بنا یا ایک بات جو دونوں کو محسوس ہو رہی تھی وہ یہ تھی پشاور کا شہر غریبو ں، مسکینوں، مزدوروں، مجبوروں اور بے نوا وں کے لئے اپنی بانہیں وا کر کے رکھتا ہے کا بل اور اسلا م آباد سے پشاور آنے والا یہ دیکھ کر سکھ کا سانس لیتا ہے کہ اس شہر میں کم آمد نی والے کو بھی اپنی بے بضا عتی کا احسا س نہیں دلا تا یہاں کے سرائے میں چار پا ئی آج بھی ملتی ہے یہاں کے فٹ پاتھ پر سستا ظہرانہ آج بھی ملتا ہے۔