بھارت: عدم رواداری

بابری مسجد پر حملے کو تیس سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے‘ جس میں ہندوتوا انتہا پسندوں کے ایک بے قابو ہجوم نے ایودھیا نامی شہر میں پانچ سو سالہ پرانی مسجد کی بے حرمتی کی اور اُسے منہدم کر دیا۔ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران بھارت میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے مقدس مقامات کی بے حرمتی کے کئی اور واقعات پیش آئے ہیں جن میں سب سے زیادہ  مسلم امہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے بھی ایسے سانحات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی حکام کو ایسے حملوں کو روکنے کی ضرورت ہے۔ بابری مسجد کے انہدام کی تیسویں برسی چھ دسمبر کو تھی لیکن دوہزارچودہ سے بھارتیہ جنتہ پارٹی (بی جے پی) کی حکومت نے اس حوالے سے انصاف نہیں کیا۔ انتہا پسند بریگیڈ کی جانب سے ہر وقت ہونے والے فسادات اب بھارت میں معمول بن چکے ہیں‘ یہ انتہا پسند دیگر مذاہب کے خلاف نفرت پھیلاتے ہیں جس کے
 نتیجے میں گزشتہ دہائیوں کے دوران بھارت بھر میں ہزاروں نہیں تو سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ دیگر مذاہب کے خلاف نفرت کو ہوا دینا بھارتی حکمران جماعت کے رہنماؤں اور سنگھ پریوار میں اس کے اتحادیوں کے لئے ایک معمول کا معاملہ ہے۔ آٹھ سال قبل ’بی جے پی‘ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ہی ہندو بالادست گروہوں نے بے مثال طاقت حاصل کی ہے۔ اب ایسے گروہ مساجد سمیت مزید عبادت گاہوں کو مندروں میں تبدیل کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ایسی ہی ایک مسجد
 وارانسی کی گیان واپی نامی مسجد بھی ہے جسے اب کچھ گروپ ہندو مندر میں تبدیل کرنے کے لئے نشانہ بنا رہے ہیں۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کا یہ کہنا درست ہے کہ اس طرح کے مطالبات بابری مسجد جیسے مزید سانحات کا باعث بن سکتے ہیں۔ اگر بھارتی حکومت نے مذہبی آزادی پر بار بار ہونے والے ان حملوں کو نہیں روکا تو ملک اس سے بھی زیادہ عدم برداشت کے مستقبل کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ہندوستان میں دیگر مذاہب پر حملوں نے ایک ایسے ملک کی ساکھ کو داغدار کیا ہے جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بھارت کی حکمران جماعت کو مذہبی جنون کی کوئی پرواہ نہیں ہے جو کچھ انتہا پسند ہندو بھڑکانے میں کامیاب رہے ہیں۔ ہندوتوا نظریئے کی بنیاد پر بھارت میں بڑھتی ہوئی انتہا
 پسندی نے ایک ایسا جنون پیدا کر دیا ہے جس کو فوری طور پر ختم کرنے کی ضرورت ہے‘ گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کے ذمہ دار مجرموں کی حالیہ رہائی اس کی ایک مثال ہے۔ اس طرح کا نرم رویہ بھارت میں استثنیٰ کے کلچر کو فروغ دیتا ہے جو معاشرے میں انتہا پسندی کی مزید حوصلہ افزائی کا باعث ہے‘ بھارت کی حکومت کو یہ بات یقینی بنانا چاہئے کہ تمام اقلیتی گروہوں کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کیا جائے تاکہ متنوع مذہبی گروہ امن اور ہم آہنگی کے ساتھ رہ سکیں‘ یہ بات مایوس کن ہے کہ دنیا بھر کے بیشتر مسلم ممالک بھارت میں انسانی حقوق کی اس طرح کی کھلی خلاف ورزیوں کا زیادہ نوٹس نہیں لے رہے ان کے علاؤہ اسلامی تعاون تنظیم کی جانب سے بار بار اعلان کیا جاتا ہے۔ دریں اثناء بھارت میں اقلیتیں تیزی سے بڑھتی ہوئی فاشسٹ حکومت کے تحت مشکلات کا شکار ہیں۔