چاول سادہ کیوں نہ ہو بلکہ جیسے بھی ہوں دانہ اگر تھوڑا سخت بھی ہوا تو چل جاتا ہے‘جان سے گزر جائیں گے مگر باوجود کسی کے منع کرنے کے کھائیں گے؛ چاولوں کی تو ان گنت اقسام ہیں؛میں پکانے کی بات کر رہاہوں کیسے کیسے نت نئے طریقوں سے پکائے جاتے ہیں ہر قریہ ہر شہر میں اس پکوان کے متوالے قسم قسم کے چاول کھاتے ہیں؛وہی چاول اگر گیس پر پکے پکائے گئے ہوں تو الگ مزااور اگر لکڑیوں کی دھانس پرتیار ہوں تو جدا لطف ہوتا ہے؛ لکڑیو ں کے جلنے کی خوشبوبھی چاولوں کی خوشبو کے ساتھ شامل ہو کر دل وجان کو ا س سردی میں خوب ٹکور دیتی ہے کیونکہ چاول توچاول ہیں؛پکنے پکانے سے ہٹ کر بھی اس کی بہت اقسام ہیں‘پنجاب کے باسمتی چاول ہوں تو کیا بات ہے پھرہمارے ہاں کا میوہ چنا پلاؤ ہو تو بس آنکھیں ان چاولوں کو دیکھ کر کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں پھر اگر دم پُخت ہوں تو ذہنی حالت بدل جاتی ہے معدے میں کڑول پڑنا شروع ہو جاتے ہیں‘جسم بھی اس دوران میں پیچ و تاب اور بل کھانے لگتا ہے کہ کب یہ خالی ہاتھ چاولوں تک رسائی حاصل کریں گے کیونکہ آج کل تو ولیمے ہیں اور شادیاں ہیں پھر لگاتار ہیں‘ رنگ روڈ کے اندر شادی ہال یا رنگ روڈ کے پار ہیں بس اس قسم کی تقریبات کی دعوت ملتے ہی ہم تیار ہیں سوچتا ہو ں اگر چاول نہ ہوتے تو دنیا میں اندھیر ہوتایہ تو چاول ہیں جس سے دنیا کی رونق ہے اور شادیوں کی بہار ہے علامہ اقبال جیسی ہستی جب سادہ چاول شوق سے تناول فرماتے تو ہماری حیثیت کیا کہ ہم اس خشکہ پردال ڈال کر نہ کھائیں بلکہ چاول جیسے بھی پکے ہوں تو سونے پہ سہاگے والی بات ہے کہ اس میں گوشت ہو۔اب جو جو ولیمے اس وقت ہمارے شیڈول میں ہیں ان پر ہماری خوب نظر ہے پھر شادی ہال بھی زبردست قسم کا ہو اور گراں قیمت ہو تو ظاہر ہے کہ وہا ں اس عمارت کی آن بان کو برقرار رکھنے کے لئے اندر کھانوں میں لذت زیادہ کرنے کو چاولوں پرزیادہ زور دیا جاتا ہے اتوار کو دوپہر ولیمہ ہے۔کارڈسنبھال کر رکھا ہے کہ بری بات ہے اگر وہاں ان کے بیٹے کے ولیمے میں حاضری نہ دی۔کہیں ہمارے دوست اور جگر پروفیسر خالد سہیل ملک خفا نہ ہوں اس لئے اس لئے ضروری جانا ہے۔ویسے پنجاب کے باسمتی چاولوں کی تو کیا ہی بات ہے‘ہمارے ایک دوست کی زوجہ پنجاب سے ہیں وہ پنجاب سے لاتی ہیں یا منگوا لیتی ہیں ٹین کے بڑے حمام میں بھرپور سٹاک اور چھ ماہ کا راشن ڈال لیتی ہیں غلے کے ایسے حمام میں آدھ فٹ چوکور کی چھوٹی سی کھڑکی بھی ہوتی ہے ڈھکن کھولو تو اوپر سے چاول نیچے پلاسٹک کے بڑے پیالے میں گرنا شروع ہو جاتے ہیں‘پھر ان کو پانی میں بھگو کر جب پکاتی ہیں تو گھر میں صرف خوشبو ہی سے بیٹھک تک کا علاقہ خوشبو خوشبو ہوجاتا ہے بریانی بھی پشاور میں خوب رواج پا چکی ہے‘ کراچی کی ڈش ہے مگر کیا خوب انداز سے پکتی ہے اس کی تو دکانیں پورے شہر میں جگہ جگہ کھلی ہوئی ہیں ہم اس معاملے میں خوش قسمت واقع ہوئے ہیں کہ ہمارے اس طرح کی دوستوں کی کمی نہیں ہے ایک دوست کی بیگم توکراچی کی ہیں کیا بریانی بناتی ہیں خود ہمارا سسرال بھی کراچی میں ہے۔سو گھر میں بھی بریانی کا لطف اٹھاتے ہیں بلکہ دوست کبھی فرمائش کرتے ہیں کہ چلو یار بہت ہو گیا بھاگے ہوئے کبوترکی طرح ہم سے بہت دورپھرتے ہو گھر میں بریانی کا پروگرام کرو‘سو یاروں کی نہ مانیں تو شہر میں کیسے رہیں‘کوفتوں کے مونگ والے چاولوں کی الگ شان ہے مگر بعض حضرات تو مونگ والے چاولوں پر جان چھڑکتے ہیں پھر کابلی پلاؤ کی بات نرالی ہے ہمارے ایک کالم ریڈر تو کسی ہوٹل میں کام کرتے ہیں ایک دن پتہ پوچھ کر گھر کی دہلیزتک سبزی والے چاول لے کر آگئے گھر آئے مہمان کو خوش آمدید کہناپڑتا ہے پھر گھرآئی چاولوں کی اس خاص نعمت کو جھٹلانا تو بہت بڑا جرم تھااس لئے ہم نے یہ جرم اپنے اوپر ثابت کرنے سے گریز کیاہمارے ایک عزیزہیں ان کو تو علامہ اقبال کی طرح خشکہ چاول بہت پسند ہیں‘ان سادہ چاولوں پر دال ڈال لیتے ہیں تو سمجھو انہیں بہت بڑی دولت ہاتھ آ گئی پھر نارنج والے چاولوں کا ذکر تو پہلے ہو چلا جیسے موٹے چاولوں کی بات چل نکلی تھی۔رہی بات میٹھے چاولو ں کی تو کمال کرتے ہیں جو میٹھے چاولوں کے پکانے میں بھی نت نیاانداز اپناتے ہیں زردہ کے نام سے مشہور یہ ڈش تو اپنے رنگ ہی کی وجہ سے جاذبِ نظر ہو تی ہے کہ بندہ اگر نہ بھی کھائے تو سورج کی ان کرنوں کو پلیٹ میں ایک جگہ جدا جدا دیکھتا جائے۔ دیگیوں کے پاس تو زیادہ سمجھ بوجھ ہوتی ہے چاول کوئی بھی ہوں باسمتی چالوں کی طرح کہ گھرمیں پکے ہوں کبھی گھچا نہیں ہوں گے میں کہوں اور قابلِ رعایت ہوں کہ مرد باورچیوں کے ہاتھ میں گھروں کے پکوانوں سے زیادہ لذت ہوتی ہے۔