ہنر مندو ں کی دُنیا 

دنیا ہمیشہ سے ہنر مندوں کی رہی ہے خا ص کر مو جودہ زما نے کو ہُنر مندی کا زما نہ کہا جا تا ہے، اس لئے ترقی یا فتہ اقوام نے انسا نی وسائل کو ہنر مندی میں تر بیت دیکر ملک کو ترقی دی ہے انجینئرنگ یو نیور سٹی کے پر و فیسر کو اپنی گا ڑی ان پڑھ مستری کے پا س لے جا نا پڑ تی ہے کیونکہ مستری کے پاس ہنر ہے پرو فیسر کے پاس صر ف ڈگری ہے، ہنر نہیں اُس بیچا رے نے پیچ کس کو ہاتھ نہیں لگا یا، اس کو چا بی کے نمبر کا کوئی علم نہیں اس لئے کہا جا تا ہے کہ اولاد کو ہنر سکھاؤ، ہنر حا صل کرنے کے بعد آپ کی اولا د بے روز گار نہیں ہو گی بلکہ ایم اے اور ایم بی اے کرنے والے بے روز گاروں کو اپنی ورکشاپ میں روز گار دے دے گی۔ پریس کلب کے چند صحا فیوں نے عوامی مسا ئل سے آگا ہی کے لئے ایک پہاڑی ضلع کے چار ویلیج کونسلوں کا دورہ کیا تین ہائی سکو لوں میں گئے ایک ہائیر سیکنڈری سکول اور دو مڈل سکولوں کے علا وہ آٹھ پرائمری سکولوں میں گئے، صحا فیوں کو یہ جا ن کر حیرت ہوئی ان ویلیج کو نسلوں میں آٹھ انجینئروں کو پرائمری، ہا ئی اور مڈل سکولوں میں سکیل 9سے سکیل 14تک مختلف گریڈوں میں استاد بھر تی کیا گیا ہے انجینئرنگ یو نیور سٹی کی تعلیم ان کے کا م نہیں آئی 10سال یا 12سال بے روز گار رہنے کے بعد سکول میں ٹیچر، ما نیٹر یا لیڈر بھر تی ہوئے ان کے پا س ڈگری تھی ہنر نہیں تھا ڈگری اور ہنر کے در میان تو ازن نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے پیشے میں مقا م حا صل نہ کر سکے چنا نچہ پیشہ ہی بدل دیا ایک انجینئر نے بتا یا کہ ان کے کئی ساتھیوں نے کلر ک اور کے پی او کی پوسٹیں لیکر دفتروں میں کام شروع کیا ہے کیونکہ بے روزگاری سے یہ بھی بہتر ہے۔ یہ کوئی بری بات نہیں کہ نئی نسل کو اعلیٰ تعلیم کا شوق ہے مگراعلیٰ تعلیم کے بعد بے روز گار ی کی طویل بے قراری اُن کی نظر وں سے اوجھل ہے۔ ہنر مندوں کی دُنیا میں بے شمار قابل تقلید مثا لیں ہیں جر منی، فرانس، چین اور جا پا ن گروپ 8کے اہم صنعتی مما لک ہیں ان کے ہاں صرف 5فیصد نو جوان یو نیور سٹیوں میں جا تے ہیں 95فیصد کو 20سال کی عمر سے پہلے ہنر مند بنا کر روز گار دیا جا تا ہے کارخانوں‘ زر عی فارموں‘ڈیری فارموں، پولٹری فارموں اور دیگر پیداواری یو نٹوں میں ان سے کام لیا جاتا ہے۔ اس کے دو بڑے فائدے ہیں، ماں باپ پر اعلیٰ تعلیم کے اخرا جات کا نا روا بو جھ نہیں ہوتا، دوسرا فائدہ یہ ہے کہ پیدا واری شعبوں کو ہنر مند افراد ملتے ہیں اور پیدا وار میں اضا فہ ہوتا ہے، معیار بہتر ہوتا ہے ملکی برآمدات کو بڑھا یا جا تا ہے اور زرمبا دلہ کما یا جا تا ہے۔ ترقی یا فتہ ملکوں میں اعلیٰ تعلیم کے مقا بلے میں انسا نی وسائل کی ترقی (HRD) کا اصول کار فر ما ہو تا ہے وہ ہیو من ریسورس ڈیو لپمنٹ کو ما سٹر، ایم فل اور پی ایچ ڈی پر ہر حال میں تر جیح دیتے ہیں۔ وہ بے روزگار سکا لر پیدا کرنے سے ہنر مند افراد پیدا کرنے کو ملک اور قوم کے حق میں بہتر سمجھتے ہیں اور یہ ان کے حق میں بہتر ثا بت ہوا ہے ہمارے نو جوانوں کی بڑی تعداد کا رخا نوں میں نوکری کر نے کیساتھ آر ٹس کے مضا مین میں گریجو یشن کر لیتی تھی۔ گریجو یشن کے بعد ایم اے بھی زیاد ہ مشکل نہیں ہوتا اس طرح ہنر مندی کے ساتھ اعلیٰ تعلیم کی منزل بھی حا صل ہوتی تھی۔ 4سالہ ڈگری کورس اور سمسٹر سسٹم نے پرائیویٹ گریجو یشن کا راستہ بند کردیا ہے اب ماں باپ پر 8سمسٹروں کا خرچہ لا د دیا گیا ہے جو غریبوں کیلئے نا قا بل برداشت ہے۔ ووکیشنل ٹریننگ کے موا قع نہ ہونے کے بر ابر ہیں، ایسے میں ووکیشنل ٹریننگ کو یو نیور سٹی کی تعلیم کے برا بر در جہ دے کر عوام کو ہنر مندی کے لئے ذہنی طور پر تیار کر نا ضروری ہے۔