یوسف خان کی 100  ویں سالگرہ

اگر دلیپ کمارجن کا اصلی نام یوسف خان تھا آج زندہ ہوتے تو آج یعنی گیارہ دسمبر 2022 کو وہ اپنی 100ویں سالگرہ منا رہے ہوتے وہ 11 دسمبر 1922 کو پشاور شہر کے قصہ خوانی بازار میں واقع ایک محلے ڈھکی شریف خان  میں غلام سرور کے ہاں پیدا ہوئے تھے وہ ابھی کمسن ہی تھے کہ معاش کی تلاش میں ان کے والد جو فروٹ کا کاروبار کیا کرتے تھے بمبئی چلے گئے تھے اور ان کے ساتھ ان کا ٹبر بھی چلا گیا۔ وہاں  یوسف خان تھا نے اپنے باپ کا ہاتھ بٹھانے کے واسطے نوکری کی تلاش شروع کر دی۔ اس دوران ان کی اس وقت کی مشہور فلم پروڈیوسر دیویکا رانی سے ملاقات  ہوگئی جنہوں نے ان کے اندر اداکاری کے چھپے ہوئے ٹیلنٹ کو بھانپ لیا اور ان کو فلمی دنیا میں بطور اداکار متعارف کروا دیا۔ یہ یوسف خان کی اداکاری کا خاصہ تھا کہ انہوں بالی وڈ میں اپنی بہترین اداکاری سے اپنے واسطے ایک ایسا مقام بنایا جو بالی وڈ میں اور کوئی اداکار نہ بنا سکا۔ کسی نے کیاخوب کہا ہے کہ جب بھی بالی وڈ کی تاریخ لکھی جائے گی اس کو تاریخ دان  دو حصوں میں تقسیم کریں گے ایک حصے کا عنوان ہوگا دلیپ کمار سے پہلے اور دوسرے کا ہوگا دلیپ کمار کے بعد۔ خیبر پختونخوا کی حکومت نے اچھا کیا جو ان کے آبائی گھر  جو ان کی جائے پیدائش ہے کو تاریخی  ورثہ قرار دے کر اسے میوزیم بنا دیا ہے۔ دلیپ صاحب1988 میں 50 برس بعد اپنے دورہ پاکستان کے دوران اپنی بیگم سائرہ بانو  کے ساتھ اس گھر بھی گئے تھے جو انہوں نے 1938 میں اسوقت چھوڑا تھا جب وہ بمبئی چلے گئے تھے اپنے گھر کی چوکھٹ کے اندر قدم رکھنے کے وقت جو خوشی کے تاثرات ان کے چہرے پر نمایاں تھے و ہ دیکھنے کے قابل تھے اس دورہ کے 10 برس بعد وہ 1998 میں بھی پشاور آئے تھے پر اپنے گھر نہ جا سکے تاہم وہ قلعہ بالاحصار پر چڑھ گئے اور انہوں نے  اس کے اوپر سے اپنی جنم بھومی کو دیکھ کر اپنی آنکھوں کی پیاس بجھائی۔دلیپ کمار نے اداکاری کے فن میں جو بلند مقام حاصل کیا اس پر جتنا لکھا جائے کم ہے ان جیسا اداکار برصغیر کی فلم انڈسٹری  میں نہ ان کے آنے سے پہلے آیا اور نہ ان کے بعد۔ان کو کنگ آف دی ٹریجڈی کہا گیا کیونکہ المیہ اداکاری میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا پر جب کبھی بھی  انہوں نے کسی فلم میں مزاحیہ کردار ادا کیا تو اس میں بھی وہ فن اداکاری کی بلندی کو پہنچے۔ دلیپ کمار نے بہت کم کام کیا اپنے ساٹھ سالہ فلمی کیریر میں انہوں نے صرف 60 فلموں میں کام کیا وہ تعداد سے زیادہ معیار پر زور دیتے تھے۔دلیپ کمار کے بھائی ناصر خان اور ناصر خان کے بیٹے ایوب نے بھی بالی وڈ میں بطور اداکار قسمت آزمائی کی پر ان دونوں کے قدم وہاں نہ جم سکے۔دلیپ صاحب کو اپنی جنم بھومی سے ازحد محبت تھی وہ رہتے تو بمبئی میں تھے پر ان کا من ہر وقت پشاور میں رہتا۔ خیبر پختونخوا کی حکومت نے حال ہی میں پشاور میں واقع ان کے گھر کو میوزیم تو بنا دیا ہے پر اس میں وہ تمام اشیاء ڈسپلے کی جائیں کہ جو ان کے زیر استعمال رہیں یا ان کی ذات سے جڑی ہوئی تھیں۔ان کو بمبئی سے لا کر اس میوزیم میں سجانا مشکل کام ہے۔اُمید کی جاتی ہے کہ اس میوزیم کے منتظمین نے اب تک سائرہ بانو سے رابطہ ضرور کیا ہو گا یہ بھی اُمید کی جاتی ہے کہ ان  کی جائے پیدائش والے گھر کو اسی ڈیزائن پر بحال کیا جاے گا کہ جو 1938 میں تھا کہ جب دلیپ صاحب اسے آخری بارچھوڑ کر بمبئی گئے تھے۔ دلیپ صاحب کے دو اور بھائی بھی تھے جن کے نام احسن اور اسلم تھے وہ بھی ناصر خان کی طرح عمر میں ان سے چھوٹے تھے اور وہ دونوں اوپر نیچے یکے بعد دیگرے کورونا سے دلیپ صاحب کی وفات سے پہلے فوت ہو گئے تھے۔ دلیپ صاحب سے دو بڑے بھائی بھی تھے ایک کا نام تھا ایوب اور دوسرے کا نور۔ ان کے والدین کی وفات کے بعد ان کی بڑی بہن نے ان سب کی بشمول ان کی چھوٹی بہنوں کی نگہداشت کی تھی ان کی بڑی بہن بھی اب بقید حیات نہیں ہیں اور دوسری بہنیں بھی گمنامی کی زندگی گزار رہی ہیں۔ کوئی مغرب کے کسی ملک میں رہائش پذیر تو کوئی بمبئی میں۔دلیپ صاحب کی اہلیہ سائرہ بانو جن کی دلیپ صاحب سے محبت ضرب المثل تھی۔ دلیپ کمار کے انتقال کے بعد ٹوٹ پھوٹ چکی ہیں اور بمبئی میں مقیم ہیں انہوں نے ایک روایتی مشرقی بیوی کی طرح دلیپ صاحب کی زندگی کے آخری دس سالوں میں ان کی بڑی خدمت کی کہ جب وہ اکثر صاحب فراش رہے۔  اس لحاظ سے بھی دلیپ کمار بڑے خوش قسمت نکلے دلیپ صاحب اولاد سے محروم تھے اور نہ ہی ان کے بھائی ناصر خان کے علاہ ان کے کسی اور بھائی کی اولاد تھی۔