یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے 

اس شہرِ گل عذاراں میں آج دھول دھبے مٹی گرد و غبار بھیڑ بھاڑ گند گریل شور شرابے نے وہ دھوم مچائی ہے کہ جس کی باز گشت دوسرے ملکوں کے صاف ستھرے معاشرو ں میں بھی سنائی دے رہی ہے۔صرف رکشوں کو لیں تو لاکھ کے اوپر کی تعداد میں یہ تین پایوں کی گاڑیوں نے پورے شہر کو ہائی جیک کر کے اس کی سڑکوں پر بچھوؤں کی طرح رینگنا شروع کر رکھا ہے۔ان کے سائیلنسروں سے اٹھنے والا دھواں اس شہر کی فضا کو کس قدر تباہ حال کر رہا ہے اس کا اندازہ کچھ وہی کرسکتے ہیں جو اس شہر کے ساتھ درد مندی کا رشتہ رکھتے ہوں۔دوسری گاڑیوں کا تو ذکرچھوڑیں۔وہ بھی اسی مقدمے میں ملوث ہیں جو ہم اس وقت بنا رہے ہیں۔صاحبان ایک رکشے کے پیچھے کمپنی کی طرف سے تحریر تھا ”ماحول دوست“۔یہ سارے رکشے عرصہ ہوا شہر کی سڑکوں پریہاں وہاں بچوں والی ویڈیوگیم کھیل رہے ہیں۔کوئی غلط سمت سے آ رہا ہے کوئی سڑک پر الٹی طرف کو جا رہاہے وہ افراتفری ہے کہ کسی کو کسی کی پرواہ نہیں۔میں سوچنے لگا کہ رکشوں کو ماحول دوست بنایا گیا ہے۔یعنی ا س کا سائیلنسر تو ہے مگر اس میں دھواں نہیں نکلتا۔پھرسائیلنسر بھی دکھائی نہیں دیتا۔وہ رکشہ کے نیچے کہیں چھپا ہوا ہے۔پھر اگر دھواں دیتا ہے تو بہت ہی کم دھواں بکھیرتا ہے۔میں نے رک کر دو چار رکشوں والوں کے ساتھ انٹرویو کا ڈول ڈالا۔ پسٹم اگر خراب نہ ہو اور موبل آئل ٹھیک طریقے سے دیا گیا ہو تو پھرپرانے رکشوں میں سے بھی دھواں خارج نہیں ہوگا۔مگر رکشہ والے بھائی اس بات کا نوٹس نہیں لیتے۔بلکہ اکثر تو بس رکشہ چلانا جانتے ہیں۔ رکشہ میں خرابیوں کا حال اور اس کی تفصیلا ت کے بارے میں ان کوزیادہ آگاہی نہیں ہوتی۔ان کو اس بات کا اندازہ نہیں کہ ان کے رکشوں میں سے نکلنے والا دھواں کس قدر خطرناک ہے۔اگر ان کو پتا چل جائے تو وہ اس کا خاطرخواہ بندوبست کریں۔ کیونکہ کہیں سے بھی دھوا ں اگر نکلے خواہ گھر کے آتش دان کی چمنیاں ہوں یا اینٹوں کے بھٹے کے آتشیں مینار ہوں۔ دھواں اوپر اٹھتا تو ہے تو یہ ضائع نہیں جاتا۔یہ ہوا میں جا کر اپنی شکل تبدیل کر کے موجود رہتا ہے۔پھرجن گلی محلوں میں صفائی کا عملہ نہیں آتا وہاں بعض اپنے حساب سے سمجھ دار لوگ کوڑے کو گلی میں آگ دکھلا کر روز جلاتے ہیں۔ مگر نادانوں کو معلوم نہیں کہ اگر کوڑایونہی پڑا رہتا تو اتنا نقصان نہ دیتا۔جتنااسے جلایا گیاتو اس میں نکلنے والے دھوئیں میں شامل گیسوں نے انسانوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ دھواں آخر دھوا ں ہے۔آکسیجن گیس تو نہیں کہ انسانوں کے سانس کے لئے فائدہ مند ہو۔دھواں تو ہوا کے زور پر جہاں کہیں بھی جائے وہاں انسانوں میں پھیپھڑوں کے ذریعے داخل ہو کر ان کو سانس کی بیماریو ں میں مزید مبتلا کر دے گا۔ پھر یہ دھواں صبح او رشام کی دھند میں شامل ہو کر سموک نہیں رہتا سموگ بن جاتا ہے۔دھند اور دھوئیں کا مکس اپ ہو تو یہ سموگ اس بچے کے لئے تو انتہائی خطرناک ہے جو ابھی کچھ مہینوں بعد دنیا میں آنے والا ہے۔صرف رکشوں کی بات تو نہیں رکشے تو یونہی بدنام ہیں۔کارخانوں میں سے نکلتا ہوا دھواں بھی اسی قصورمیں پورے طورپرملوث ہے۔دھوئیں کی تباہی مچا دینے والی خاصیت سے واقفیت ضروری ہے۔یہ آگاہی ستر فی صد شہریوں کو نہیں کہ آگ سے نکلا ہوا دھواں پھرنئے سرے سے کون سی آگ جلاتا ہے۔اگر رکشوں کا یہ حال ہے تو اندازہ کریں کہ ہر قسم کی گاڑیاں شہر میں چہل پائی کی طرح رینگ رہی ہیں۔کوئی کس سوراخ میں جا داخل ہوتی ہے اور کوئی کن کھجوراکون سے مقام پرپارک ہوجاتا ہے۔ان گاڑیوں کے مجموعی طور پر تخمینہ سے بخوبی علم ہو جاتا ہے کہ شہر تو پورے کا پورا دھوئیں کی لپیٹ میں ہے۔کہا جا رہا ہے ماسک پہن کر ان سردیوں کے دنوں میں صبح اور شام کے بعد اگر ضرورت ہو تو گھرسے نکلیں جب تک شہر کا شہری خود دھواں نہ پھیلائے تو رکشوں کو ماحول دوست بنا لینے سے کیاحاصل ہوگا۔ سگریٹ پینے والا بھی اس جرم میں برابر کا شریک ہے۔جب خود سمجھ میں آجائے تو بندہ نہ صرف رکشہ بلکہ ہر جگہ دھواں بکھیرنے سے باز رہے گا۔ان دنوں سردی کا عالم ہے ہر جگہ دھوئیں کی فراوانی ہے۔مگر ان کو معلوم نہیں کہ جن کو سمجھ بوجھ حاصل ہے ان کوپریشانی ہے۔لوگ بیمار ہو رہے ہیں۔سانس کی بیماریاں زیادہ ہو رہی ہیں۔ہسپتالوں میں رش بڑھنے لگاہے۔کچھ سوچ بچار سے کام لینا چاہئے۔ اس پرغور وفکر کرنا ہوگا ورنہ ہم اپنے ماحول میں خود اپنے آپ کو جان سے مارنے کا پروگرام  بنائے ہوئے ہیں۔ماحول کی آلودگی میں لاہور کراچی او رپشاور کا نام دنیا بھرمیں لیا جا رہاہے۔پھرعرصہئ دراز ہوا کہ آلودگی پھیلانے والے شہروں کی فہرست میں یہ نام واش ہی نہیں ہو رہے۔