ریاض اور بیجنگ میں قربت 

اچھی خبر یہ ہے کہ ریاض اور بیجنگ کی با ہمی قر بت میں اضا فہ ہوا ہے چینی صدر چن شی پنگ نے ریا ض میں سعودی فر ما نروا سلمان بن عبد العزیز اور ولی عہد محمد بن سلمان سے ملا قاتوں میں اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ نئے عالمی نظام میں عوامی جمہوریہ چین کی قیا دت عالم اسلا م کے شا نہ بشا نہ کھڑی ہو گی۔ اقوام متحدہ، سلا متی کونسل سمیت ہر فورم پر عالم اسلا م کو چین کی حما یت حا صل رہے گی۔ چینی صدر کے دورہ سعودی عرب کے دوران 35اہم معا ہدوں پر دستخط کئے گئے جن میں 30ارب ڈالر کی چینی سر ما یہ کار ی اور دو طرفہ تجا رت کے معا ہدے شامل ہیں۔ سعودی عرب نے گذشتہ چند سالوں کے اندر وژن 2030کے نا م سے نئی پا لیسی پر کا م کا آغاز کیا ہے۔ اس پا لیسی کے دو بڑے مقا صد ہیں، پہلامقصد یہ ہے کہ سعودی معیشت کو صرف تیل کی آمد نی پر انحصار نہیں کرنا چا ہئے بلکہ معا شی وسائل کے دیگر راستے بھی اختیار کرنے چا ہئیں دوسرا مقصد یہ ہے کہ عالمی برادری کے ساتھ تعلقات میں کسی ایک ملک یا کسی ایک گروپ کے ساتھ دوستی کی جگہ دنیا کے تما م اہم مما لک کے ساتھ دوستی پر مبنی پا لیسی اپنا نی چاہئے تا کہ سعودی عرب کی ساکھ کسی ایک بلا ک کے ساتھ چپک کر نہ رہ جا ئے اور قومی مفاد کو سامنے رکھ کر سعودی حکو مت کسی بھی ملک کے ساتھ تعلقات استوار کر سکے،وژن 2030کے تحت سعودی عرب نے خواتین کے حقوق اور ثقا فتی شعبوں کے لئے اصلا حا تی ایجنڈا تیار کیا جس کے تحت خواتین کو سما جی اور معا شرتی حقوق مل گئے یہاں تک کہ اب وہ گاڑی بھی چلا سکتی ہیں۔ سعودی عرب کے پہا ڑوں، صحرا وں اور نخلستانوں میں سیا حتی اہمیت کے مقا مات کی نشا ن دہی کر کے ایسے مقا مات کو سیا حوں کے لئے کھولنے کی پا لیسی بنا ئی گئی۔ چینی صدر کا حا لیہ دورہ اسی ایجنڈے کا حصہ تھا اگر تاریخی تنا ظر میں دیکھا جا ئے تو گذشتہ نصف صدی کے اندر عوامی جمہوریہ چین نے عالمی برادری میں سر مایہ دارانہ نظا م کے مقا بلے میں متبا دل نظا م کی قیا دت کا منصب سنبھال لیا ہے، امریکہ اور سوویت یو نین کے درمیان دوسری جنگ عظیم سے لیکر افغا ن جنگ کے خا تمے تک جو سرد جنگ چل رہی تھی اُس میں چین نے   ”نیو ٹرل“ کا کر دار ادا کیا تھا۔ سرد جنگ کے خا تمے کے بعد یہ تا ثر پیدا ہوا کہ سوویت یو نین ٹو ٹ گیا اب دنیا میں دو طاقتوں کی حکمرانی ختم ہو ئی ایک ہی طا قت رہ گئی اس کو بائی پو لر یا دو قطبی کے بجا ئے یو نی پو لر یا یک قطبی عالمی نظام کا نا م دیا گیا۔ امریکی دفتر خار جہ نے اس کو نئے عالمی نظا م نیو ورلڈ آر ڈر سے تعبیر کیا لیکن عوامی جمہوریہ چین نے اپنی معا شی، صنعتی اور تجا رتی سر گر میوں کے ساتھ خلا ئی مشن اور فو جی طاقت کے ذریعے اس مفرو ضے کو غلط ثا بت کیا۔ دوسری جانب سوویت یو نین کے ملبے سے روس کا نیا جنم سامنے آگیا۔ روس اور چین نے مغربی بلا ک کے مقا بلے میں عملاً مشرقی ملکوں کا متبا دل بلا ک قائم کیا۔ چین مسلمان ملکوں میں اکثر یہ شکا یت سنی جا تی تھی کہ سعودی عرب کا جھکاؤ ایک مخصوص بلا ک کی طرف ہے وژن 2030کے تحت سعودی عرب نے خارجہ تعلقات میں کھلی پا لیسی اختیار کر کے اس شکایت کا بھی ازالہ کیا ہے۔چین کے سعودی عرب کے قریب ہونے کا نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ عرب لیگ کے سارے ممالک چین کے ساتھ قریبی تعلق میں جڑ گئے ہیں جس سے مشرق وسطیٰ نے طاقت کا توازن بحال کرنے میں مدد ملے گی کیونکہ اس وقت زیادہ تر عالمی طاقتوں کی توجہ کا مرکز اسرائیل رہا ہے جس سے عرب ممالک کو کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا یہ صورتحال اب بدل سکتی ہے۔