چین کے بڑھتے اثر رسوخ کے خلاف امریکہ سرگرم

 موسمیاتی تبدیلی اپنا جوبن دکھلا رہی ہے اور امسال جاڑا پچھلے سال کے مقابلے میں واقعی بہت سخت ہے جس سے ملک بھر میں فلو اور نمونیا کے کیسز تیزی سے پھیل رہے ہیں اس سے جنگی بنیادوں پر نبٹنا ہوگا اس جنگ کو وطن عزیز تن تنہا کامیابی سے نہیں لڑ سکتا ان ممالک کو اس ضمن میں بہت بڑی مالی معاونت کرنا ہو گی کہ جن کی وجہ سے یہ تبدیلی واقع ہوئی ہے جن ممالک میں ان اشیاء کا زیادہ استعمال ہوتا ہے کہ جو کاربن ڈائی آکسائڈ پیدا کر کے فضا کی آ لودگی کا موجب بنتے ہیں اور جس کی طرف اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی اپنی تقاریر میں کئی کئی مرتبہ اشارہ کیا ہے ان کو اس جنگ کا بھاری بوجھ بھی اٹھانا ہوگا اور پھر اس حساب سے ان ممالک کو اقوام متحدہ کے ذریعے فنڈز بھی فراہم کرنا ہوں گے کہ جو موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کا شکارہوئے ہیں۔ آج تک دنیا میں اگر کسی ملک نے سب سے زیادہ فٹبال کے ورلڈ کپ جیتے ہیں تو وہ برازیل ہے پر اس وقت قطر میں ہونے والی ورلڈ کپ ٹورنامنٹ سے وہ کروشیا جیسی کمزور ٹیم سے کواٹر فائنل میں شکست کھا کر  اس ٹورنامنٹ سے آؤٹ ہو چکی ہے جو یقینا فٹبال کی دنیا میں بہت بڑا upset اپ سیٹ ہے۔اب کچھ تذکرہ عالمی منظر نامے کا ہوجائے۔چین کے صدر کے حالیہ دورہ سعودی عرب کے دوران فلسطینی قیادت سے ان کے اظہار یکجہتی سے امریکہ اور اسرائیل دونوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھا ہے۔  امریکہ کب یہ برداشت کر سکتا ہے کہ کسی سپر پاور کا جھکا ؤ فلسطین کی جانب ہو۔ چین بڑی خاموشی سے دھیرے دھیرے ایشیا مشرق وسطی اور افریقہ کے ممالک میں اپنا سیاسی معاشی اور عسکری اثرو نفوذ بڑھا رہاہے۔امریکی سیکرٹری دفاع لائڈ آسٹن نے 3 دسمبر کو ریگن ڈیفنس فورم میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکا ایشیا پیسیفک ریجن میں زیادہ طاقتور پوزیشن لے گا۔ چین کو اس خطے میں وہ برتری حاصل کرنے سے روکے گا جو وہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ چین وہ ملک ہے جو ارادہ اور طاقت دونوں رکھتا ہے۔ وہ اپنے خطے اور عالمی نظام کو اپنی  ترجیحات کے مطابق بدلنا چاہتا ہے۔ تو میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ یہ ہم ہونے نہیں دیں گے۔امریکی صرف باتیں ہی نہیں کر رہے، وہ چین کو مختلف طریقوں سے دبا بھی رہے ہیں۔ امریکی اپنی صنعتی سپلائی چین کی ری اسٹرکچرنگ کر رہے ہیں۔ اس کے لئے وہ چین کے ساتھ تجارتی جنگ میں مصروف ہیں۔ وہ چینی کمپنیوں کو مقابلے سے باہر بھی کر رہے ہیں، ہواوے، زیڈ ٹی ای اور دوسری بڑی چینی کمپنیوں سے خریداری بند کر رہے ہیں اور اس سے بھی آگے بڑھ کر چینی کمپنیوں کے ساتھ کاروبار کرنے پر بھی پابندیاں لگا رہے ہیں۔اس کے نتیجے میں ساری دنیا کی معیشت اوپر نیچے ہو رہی ہے۔ اگر ہم امریکی سیکریٹری دفاع کے الفاظ سے ہی مدد لیں تو امریکا چین کی طاقت میں کمی پر توجہ دے رہا ہے تاکہ اگر وہ خطے اور عالمی نظام کو تبدیل کرنے کی خواہش کرے بھی تو اس میں ایسا کرنے کی طاقت نہ ہو۔چینی میڈیا اس صورتحال پر بڑی دلچسپ سرخیاں لگا رہا ہے۔ گلوبل ٹائمز کی ہیڈ لائن ہے کہ امریکا سپلائی چین میں خلل ڈال رہا ہے اور یہ حرکت عالمی تعلقات کو ہلا رہی ہے۔چین، ڈالر کی بڑھتی طاقت پر بھی شدید تنقید کر رہا ہے۔ گلوبل ٹائمز ہی کی ایک سرخی ہے کہ ڈالر کو بلیڈ کی طرح دنیا کو کاٹنے کے لئے استعمال نہ کرو۔ تگڑا ڈالر کمزور ملکوں کی معیشت بٹھا رہا ہے۔ مزے کی سرخی چائنہ ڈیلی کی بھی ہے کہ ڈالر مسکرا رہا ہے مگر دنیا ناخوش ہے۔ اسی نیوز رپورٹ میں سابق یو ایس ٹریژری سیکرٹری جان کنولی کا کاٹ دار جملہ بھی شامل کیا ہے کہ ڈالر ہماری کرنسی ہے اور تمہارا مسئلہ۔