سوچتے ہیں کہ اب گملوں میں پھولوں کی جگہ گوبھی کا پھول اُگانا پڑے گا۔مگرالگ سوال کہ اتنا بڑا گملہ کہاں سے آئے گا۔ ”کاغذ کے بنے پھول جو گلدان میں رکھنا۔ تتلی کی اُداسی کو بھی امکان میں رکھنا“ (اسحاق وردگ)۔یہ گلدانوں میں کاغذ کے بنے پھول تو رکھ رہے ہیں مگر تتلی اُداس ہو جائے جب ان پھولوں کے لئے گلدان کے پاس آئے۔ یہ نہ ہو کل کو گلاب کے پھول سے چنبیلی کی خوشبو آنے لگے۔کیونکہ یہ ہر قدرتی چیز میں ہاتھ مار رہے ہیں۔ان کو احساس نہیں کہ گاہک بھی جب دکان کی طرف آئے گا تو تتلی کی مانند اُداس ہو جائے گا جو سبزیوں میں ذائقہ حاصل نہ کر سکے۔ہری مرچ کی گرانی پرایک تحریر قارئین کی نذر کی تھی۔ ایک مہربان نے کینیڈا سے ای میل کیا۔فرمایا گھرمیں گملوں میں مرچیں اُگا لیں۔ ان کی بات کو میں نے خوب انجوائے کیا۔یہ بھی بہت ہے کہ دورپار کے دیسوں میں ہمارا کالم پڑھا جائے۔گاہے نیویارک سے بھی پسندیدگی ظاہر کی جاتی ہے۔ٹماٹر پیاز ہر چیز کا ایک دور ہوتا ہے بلکہ ان سبزیوں کو مہنگائی کادورہ پڑتا ہے۔جو وقت کے ساتھ اُتر بھی جاتا ہے۔کبھی لیموں ہزاروں کے مول تھے۔جو دکاندار مفت میں ایک آدھ ڈال دیتا۔پھر سبز مرچ کا بھی یہی حساب تھا۔ مگر جب ان اشیاء کے ساتھ مصنوعی کانٹے لگا دیتے ہیں تودکان پر ان کو ہاتھ لگانا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ ایک تو چائنا نے ہر چیز میں دخل اندازی کی ہے۔خواہ وہ الیکٹرانکس ہو سائنس ہو یا سبزیاں ہوں۔گوبھی تک چائنا کی دستیاب ہے پھیکی جیسی پانی ہو۔ایسی غذا گوبھی کھانے سے بہتر ہے کہ بندہ ایلوویرا کوار غندل کاکانٹے دار پودا چبالے۔گوبھی گھر میں پک رہی ہو تو اس کی خوشبو ہم گھر آتے ہوئے گلی ہی میں سونگھ لیتے ہیں۔ ہماری مرغوب سبزی ہے۔لیکن اس میں اگر گوشت کی مکسنگ ہو تو پھر کیا بات ہے۔گوشت نہ ہو قیمہ ہو تو بھی پُر مزہ کھانا ہے۔ویسے گوبھی جتنے دن پرانی ہو جائے اس کا اپنا ذائقہ زیادہ ہو جاتا ہے۔بعض تو گوبھی کو خوب نرم کر کے حلوے جیسا بنا لیتے ہیں۔اس قیمہ کی گئی گوبھی کا الگ لطف ہے۔پھر اس میں اگر انڈا ڈال کر صبح ناشتے کے ساتھ کھائی جائے تو ناشتہ بھی کسی مغلیہ بادشاہ کا سجا سجایا کھانا بن جاتا ہے۔گوبھی بھی گراں تھی۔مگر بعض میڈیسن کی طرح شارٹ تھی۔ مگر چونکہ گوبھی سردی کی چیز ہے۔اس لئے گوبھی زیادہ اُگنے لگی ہے۔پھر سیلاب کے علاقوں میں کچھ کچھ شانتی ہوئی تو سبزیوں کی بہتات سے سبزیوں کے نرخ گر گئے۔ اب تو تیس روپے میں کلو گوبھی مل جاتی ہے۔سبزیوں میں بھی بہت ہیر پھیر ہے۔سو روپے سے لے کر دو سو تک مٹر بھی مل جاتے ہیں۔ جب گوبھی خریدی تو اس نے سبز مرچیں بھی ڈال دیں۔مجھے حیرانی ہوئی پوچھا یہ ہری مرچ چھٹانک بھر کتنے میں ہے۔ ریڑھی والے نے کہا یہ تو میں نے آپ کو مفت میں ڈالی ہیں۔ اس پر تو میری حیرانی میں مزید اضافہ ہوا۔کیوں کیایہ سستی ہوگئی ہیں۔ اس نے جواب دیا یار یہ میٹھی مرچیں ہیں۔تو اس پر میں حیرانی کے سمندر میں غوطے ہی کھانے لگا۔مرچیں او رمیٹھی ہوں عجیب بات ہے۔ایک مرچ اٹھائی سوچا دانتوں تلے کتر کے ذائقہ چکھتا ہوں کہ واقعی یہ میٹھی ہیں یا یونہی دکاندار اپنے پاس سے ہنسنے ہنسانے کی باتیں کر رہا ہے۔مگر پھر خیال آیا کہ سبز مرچ کو چک تولگا لوں گا۔مگر یہ نہ ہولینے کے دینے پڑ جائیں۔ پھریہ جلتا ہوا اپنا سا منہ لے کر ہم کہاں پانی کے لئے دوڑیں گے۔ ویسے بھی مرچوں کے ساتھ ہماری نہیں لگتی۔ہنڈیا میں ذائقہ کے لئے اگر تین دانے ڈال دو تو چلو کام نکل جاتا ہے۔مگر ہماری بیگم اگر مرچیں زیادہ ڈال دے تو ہم شوں شوں کرتے ناک پونچتے جلتے منہ کے ساتھ کھانے سے ہاتھ پیچھے کھینچ لیتے ہیں۔ وہ تعریف کے لئے پوچھتی ہیں آج کیسا پکایا ہے۔اس پر ہمارے لال اورپکے ہوئے منہ سے یہی نکلتا ہے واہ واہ مزا آگیا۔اگر مرچیں میٹھی ہوں توحلوائی سے برفی ہی لے کرہانڈی میں ڈال دی جائے۔ عجیب بات ہے کہ لڈو ہوں اور کڑوے ہوں کریلے ہوں تو میٹھے ہوں۔ ہر چیز کا اپنا تسلیم شدہ ذائقہ ہے۔وہ کیا شعر ہے کہ ”اس عشق میں سب نقشہ الٹا نظر آتا ہے۔مجنوں نظرآتی ہے لیلیٰ نظرآتا ہے“۔ کچھ یہی عالم ہے ان دنوں سبزیوں کی شکل بھی وہی ہے مگر ذائقہ تبدیل شدہ ہے۔ یہ نہ ہو کل کو مشہور حلوائی کی دکان سے رس گلے آئیں تو کڑوے کسیلے ہوں۔ پوچھیں تو جواب ملے کہ آج کل چینی توچین کے ملک سے آ رہی ہے۔ایک ملک میں بولی جاتی ہے ہر ملک میں گھولی جاتی ہے۔کچھ عجیب سا ماحول بن رہا ہے۔اگر لیموں ہے تو اس میں ذائقہ ہے مگر رس نہیں۔سبزیوں میں مہنگے اور سستے کے حساب سے مختلف قیمتیں ہیں۔ کیا خوب شعرکہا ہے انور مسعود نے ”یہی اندازِتجارت ہے تو کل کا تاجر۔ برف کے با ٹ لئے دھوپ میں بیٹھا ہوگا“۔