دنیا غذائی عدم تحفظ سے دوچار ہے اور یہ کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ یہ سوال زیادہ شدت سے اُٹھایا جا رہا ہے کہ کیا ہمارے پاس بڑھتی ہوئی عالمی آبادی کے لئے خوراک کے کافی وسائل موجود ہیں؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر کورونا وبا کی نئی لہر یا اِس جیسی کوئی دوسری وبائی مرض پیدا ہوئی تو خوراک کا تحفظ اور فراہمی کیسے کی جائے گی؟ تیسرا سوال بڑھتی ہوئی گرمی کی لہر ہے جس کی وجہ سے غذائی عدم تحفظ کا مسئلہ کھڑا ہوا ہے دوسری طرف خشک سالی میں اضافہ ہوا ہے اور دنیا کے سر پر ’آبی جنگیں‘ منڈلا رہی ہیں؟ اِن تمام خطرات میں تین چیزیں مشترک ہیں صحت‘ آب و ہوا کی تبدیلی اور بڑھتی ہوئی آبادی۔ اقوام متحدہ کے مطابق پندرہ نومبر دوہزاربائیس کے روز دنیا کی آبادی آٹھ ارب افراد سے زیادہ ہو چکی ہے اور صرف 48 سال میں دنیا کی آبادی میں دو گنا اِضافہ ہو چکا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اِنسانی بقا کو متعدی بیماریوں سے زیادہ آب و ہوا کی تبدیلی سے ’معدومیت کا خطرہ‘ لاحق ہے۔ مثال کے طور پر سیلاب باقی ماندہ زراعت اور معیشت و معاشرت کو متاثر کرسکتا ہے کیونکہ سیلاب زدہ علاقوں میں خطرناک بیکٹیریا اور مچھر کی وجہ سے متعدی بیماریوں پھیلتی ہیں اور مچھروں کی افزائش ہوتی ہے۔ ڈینگی مچھروں سے پیدا ہونے والی وائرل بیماری ہے جو ہر سال تقریبا دس کروڑ (سو ملین) افراد کو متاثر کرتی ہے۔ سال 2022ء کی
لانسیٹ رپورٹ کے مطابق ڈینگی ہر سال پہلے سے زیادہ لوگوں کو متاثر کرتا ہے۔ 1950ء کی دہائی سے اِس کی شرح میں قریب بارہ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ملیریا کے موسم میں لاطینی امریکہ کے پہاڑی علاقوں میں اکتیس فیصد اور افریقہ کے پہاڑی علاقوں میں تقریبا چودہ فیصد ڈینگی کا اضافہ موسمیاتی درجہئ حرارت میں تبدیلی کی وجہ سے دیکھا گیا ہے۔ پاکستان میں آنے والے حالیہ سیلاب نے مجموعی طور پر 10فیصد صحت کی سہولیات کو تباہ کر دیا ہے۔ رواں سال وسط جون سے ستمبر کے درمیان تین ماہ کے عرصے میں ملیریا کے کم از کم پانچ لاکھ اُنتالیس ہزار پانچ سو کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ پورے سال (دوہزاراکیس کے دوران) یہ تعداد چار لاکھ سے کم تھی۔ خشک سالی سے پینے کے پانی کا معیار بھی خراب ہو رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں‘ چوہوں کی آبادی بڑھ رہی ہے اور یہ خوراک کے عدم تحفظ کو مزید گہرا بنا رہے ہیں۔ چوہوں کی وجہ سے کئی قسم کی بیماریاں بھی پھیلتی ہیں۔ حالیہ چند برس
کے دوران ’ہارن آف افریقہ‘ اور کیلیفورنیا کو غیر معمولی خشک سالی کا سامنا ہے۔ بڑھتا ہوا درجہ حرارت بخارات کے ذریعے تازہ پانی کی فراہمی کو متاثر کرتا ہے اور پہاڑوں پر برفانی تودے (گلیشیئرز) کم ہوتے ہیں۔ برفباری کا دورانیہ کم ہوتا ہے اور یہ بات تشویشناک ہے کہ برفباری کم ہونے کی وجہ سے دریاؤں میں پانی کی روانی موسم گرما کے دوران ہر سال پہلے سے کم ہوتی جا رہی ہے۔اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق پانی کی قلت اور خشک سالی سال دوہزار تیس تک تقریبا ستر کروڑ (سات سو ملین) افراد کو بے گھر کرے گی۔ توجہ طلب ہے کہ آبادی میں اضافے اور توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کی وجہ سے جغرافیائی سیاسی تنازعات بھی جنم لے سکتے ہیں کیونکہ جب ممالک کو خوراک کی قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اُن کے ہاں پانی بھی کم ہوتا ہے تو ایسی صورت میں وہ ایک دوسرے کے وسائل پر نظر رکھ سکتے ہیں۔ کرہئ ارض کے درجہئ حرارت میں اضافہ (گرمی کی لہر) اور بڑھتی ہوئی آبادی ’غذائی تحفظ‘ کو متاثر کر رہی ہے۔ لانسیٹ جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ سال دوہزار اکیس میں درجہ حرارت نے گندم اور مکئی کی عالمی پیداوار کو کم کیا۔ دریں اثنا سمندروں کا پانی گرم ہونے سے زیرآب مخلوق اور ماہی گیری کا مستقبل خطرے سے دوچار ہے اور اگر ماہی گیری نہ رہی تو ایک بڑا طبقہ روزگار کی تلاش میں ساحل کا رخ کرے گا جہاں پہلے ہی بیروزگاری عروج پر ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ سال 2020ء کے دوران عالمی سطح پر شدید گرمی کی لہر (ہیٹ ویو) کے نتیجے میں قریب 9 کروڑ افراد ’غذائی عدم تحفظ‘ کا شکار ہوئے اور ’موسمیاتی تبدیلی‘ کے اثرات کی وجہ سے پاکستان گزشتہ تین سالوں سے گندم کی پیداوار کے اپنے ہدف سے محروم ہے۔ دنیا کے ہر خطے اور تقریباً ہر ملک کو سیلاب کا سامنا ہے اور مختلف وجوہات کی بنا پر پیدا ہونے والے یہ سیلاب سال پھیل رہے ہیں۔ پاکستان کو رواں سال جون اور اگست کے درمیان جس تباہ کن سیلاب کا سامنا کرنا پڑا‘ اُس کی وجہ بھی موسمیاتی تبدیلیوں کو قرار دیا ہے جس کی وجہ سے موسلادھار بارشیں غیرمعمولی طور پر زیادہ ہوئیں۔ سیلاب نے پاکستان کے ایک تہائی علاقے کو زیرآب کر دیا ہے جس سے تین کروڑ تیس لاکھ افراد متاثر جبکہ سترہ سو سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے اور اس سے ایک اندازے کے مطابق چالیس ارب ڈالر کا معاشی و دیگر نقصانات اٹھانا پڑے ہیں۔ دانشمندی اِسی میں ہے کہ ماحول کو ترجیح بناتے ہوئے ایسی قومی حکمت عملیاں تشکیل دی جائیں جن کے اہداف ’غذائی و آبی تحفظ‘ ہوں۔