مہمان نوازی‘ خلوص (سید ابو یاسر)

مہمان داری اورخلوص ہمارے ہاں ہمیشہ رہا ہے اور یہ و ہ عناصر ہیں کہ جن کی موجودگی نے معاشرے میں زندگی کو پر لطف اور پر سہولت بنایا ہے، جس معاشرے میں ان عناصر کی کمی ہوتی جائے وہاں زندگی کے رنگ پھیکے پڑنے لگتے ہیں،  معروف صحافی رضا علی عابدی اپنے ایک سفر نامے میں اسی خلوص کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مجھے دریاکے دائیں کنارے پر چل کر ڈیرہ غازی خان پہنچنا تھا مگر مجبوراً مجھے پل پار کرنا پڑا‘احباب نے مشورہ دیا کہ دریا پار بھکر چلے جائیے اور وہاں سے ٹرین یا بس لیکر ڈیرہ غازی خان چلے جائیے‘ اس طرح میں اس پل پر روانہ ہوا جس کا ایک سرا خیبر پختونخوا اور دوسرا صوبہ پنجاب میں تھا‘وہ رات میں نے بھکر میں گزاری‘ چھوٹی بستیوں میں ایک نعمت افراط سے ملتی ہے‘ محبت‘ بھکر میں مجھے جاننے والے کم نہ تھے ایسی دلجوئی کی کہ رات کا گزرنا محسوس تک نہ ہوا‘وہ اچھے دن تھے۔ صبح کی ٹرین مقررہ وقت پر آ گئی‘میں سوار ہوا تو ٹرین کے عملے کو میری موجودگی کی خبر ہو گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نہایت لذیذ ناشتہ اور خوب گرم چائے ملی‘ریل گاڑی چلتی گئی‘میں دونوں طرف کی بستیوں کا مشاہدہ کرتا گیا خود اپنے تاثرات ریکارڈ کئے‘اس وقت پہلی بار خیال آیا کہ کیوں نہ ریل گاڑیوں کے نظام پر کوئی پروگرام ترتیب دوں‘ پانچ سال بعد یہی گاڑیاں تھیں‘ یہی میں تھا اور ریل کہانی کے نام سے نئی تحقیق جاری تھی‘میں ڈیرہ غازی خان پہنچ تو گیا مگر کسی بھٹکے ہوئے اجنبی کی طرح میں اس شہر میں کسی سے واقف نہ تھا‘ میری کتاب میں کسی کا نام پتہ یا ٹیلی فون نمبر نہیں تھا‘یہاں سامعین تو ہزاروں ہوں گے لیکن مجھے کسی کا نام یاد نہیں تھا‘ مجھے یہ بھی پتہ نہ تھا کہ رات کہاں گزاروں گا‘سٹیشن پراترتے ہی جو پہلی صورت نظر آئی وہ گیٹ پر کھڑے ہوئے ٹکٹ کلکٹر تھے‘میں نے اپنا تعارف کرایا تو سارا ماحول جگمگا اٹھا‘میں نے کہا کہ مجھے شہر کے کالج تک پہنچا دیجیے۔ فوراً ہی تانگہ منگا لیا گیا‘ذرا دیر بعد میں شہر کے کالج میں داخل ہوا اور پہلے استاد سے اپنا تعارف کرانے کی دیر تھی کہ پورے کالج میں میرے آنے کی خبر پھیل گئی اور پھر جو محفل جمی وہ صحیح معنوں میں استادوں کی محفل تھی‘ذرا دیر پہلے مجھے فکر تھی کہ رات کہاں قیام ہو گا۔ اب یہ فکر تھی کہ کسے انکار کروں آخر قرعہ پروفیسر شریف اشرف صاحب کے نام نکلا جو خالص میرے ڈھب کے آدمی تھے۔ علاقے کی تاریخ‘ روایت اور ثقافت میں سر سے پاؤں تک ڈوبے ہوئے‘ میں ان کے گھر پہنچا تو برآمدے میں ایک عجیب چیز دیکھی میں اپنی عمر میں کھٹیا‘ کھاٹ کھٹولہ‘ پلنگڑی اور پلنگ دیکھ چکاتھا مگر یہ تو مہاپلنگ تھا جس پر چاہے تو پورا کنبہ سو سکتا تھا‘میں نے حیرت سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ انہوں نے خوشی سے جواب دیا‘ہماچی“ میں نے کہا ”اتنی بڑی؟“ کہنے لگے کہ یہ تو چھوٹی ہے‘ ہماچی کہلاتی ہے۔ اس سے بھی بڑا ہماچا ہوتا ہے جس پر پورا محلہ بیٹھ سکتا ہے۔“ اس منتخب اقتباس کا حاصل مطالعہ معاشرے کے بدلے رنگ اور ڈھنگ ہیں کہ جہاں جدت اپنے ساتھ بہت سی سہولیات اور آسانیاں لاتی ہے وہاں بدلے میں بہت ساری اچھی صفات اور رنگ بھی سمیٹ لیتی ہے کہ جن کے دم سے زندگی کا مزہ ہی کچھ اور تھا۔ اپنے آس پاس نظر ڈالنے سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ پہلے پہل سارے لوگ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے، وہ غمی خوشی میں ایک دوسرے سے اتنے قریب ہوتے کہ بلا مبالغہ ان کے دکھ سکھ سانجے ہوتے۔ اور یہی وجہ تھی کہ جہاں دکھ تقیم کرنے سے کم ہوتے وہاں خوشیاں تقسیم کرنے سے بڑھ جاتیں، یعنی ایک طرح سے زندگی میں دکھ کم کرنے اور سکھ میں اضافے کا ماحول تھا۔ اب جب کہ ہر طرح کی جدید سہولیات نے زندگی کو آسان اور پرسہولت بنا دیا ہے تو ایک دوسرے پر انحصار کرنے کی صفت کم ہوگئی ہے اور ہر کوئی اپنی ضروریات خود سے پورا کرنے کے قابل ہے اس کا دوسرا نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ لوگوں کے درمیان فاصلے بڑھتے گئے اور ایک محلے میں رہنے والے ایک دوسرے سے ایسے نا آشنا ہوتے ہیں جیسے کہ دور دراز رہنے والے اجنبی۔