ایک دور تھا کہ ہاکی جو پاکستان کا قومی کھیل تھا اس میں پاکستان ایشیا کپ، چمپیئزٹرافی، ورلڈ کپ، اذلان شاہ کپ کا چیمپیئن ہوا کرتا تھا اور پاکستانی ٹیم کے کھلاڑیوں کے پائے کا کسی مغربی ٹیم کے پاس کوئی کھلاڑی نہیںتھا‘ مثلاً پاکستانی سنٹر فارورڈ حسن سردار رائٹ آﺅٹ کلیم اللہ اور لفٹ آﺅٹ سمیع اللہ کی مدد سے بال اپنی ڈی سے لیکر مخالف ٹیم کی گول پوسٹ میں ڈال آیا کرتا تھا اور راستے میں آنے والے ہر مخالف ٹیم کے کھلاڑیوں کو اکیلا ہی ناک آوٹ بھی کردیا کرتا تھا۔ پھر بین الاقوامی ہاکی گراسی گراﺅنڈ سے آسٹروٹرف پر شفٹ ہوگئی اور دوسرے نمبر پر ہاکی کے قوانین میں بڑی بڑی تبدیلیاں بھی کی گئیں اور اس کے علاوہ پاکستانی ہاکی کو اندر سے بھی گھن کھانے لگی‘اب اندرونی سیاست اور بیرونی تبدیلی نے پاکستانی ہاکی کو ایک ایسے مقام پر پہنچادیا کہ آج پاکستانی ہاکی ٹیم بمشکل کسی بھی بین الاقوامی ایونٹ کے سیمی فائنل یا فائنل تک پہنچتی ہے ‘پاکستانی کرکٹرز وسیم اکرم، وقار یونس، مشتاق محمد، ثقلین مشتاق، عبدالقادر، عمران خان، جاوید میاں داد، وسیم باری، ماجد خان، انضمام الحق، سعید انور، محمد یونس‘ یونس خان، شاہد خان آفریدی جیسے دیگر پاکستانی کھلاڑیوں نے پاکستانی کرکٹ کو نہ صرف حیات بخشی بلکہ پاکستانی قوم میں کرکٹ کا جنون بھی پیدا کیا اور اسے دوام بھی بخشا‘ آج سے تیس سال پہلے کرکٹ ٹیم اور کرکٹ بورڈ کی اندرونی سیاست اور حکومتی مداخلت یوں منظر عام پر نہیں آئی تھی جس طرح آج ہے اور نہ ہی کرکٹ کے ساتھ پیسہ جڑا تھا بلکہ کرکٹ کا کھیل انٹرٹینمنٹ اور ملکی وقار کا مسئلہ تھا‘ کھلاڑی قوم کے لئے کھیلتے تھے اور ذاتی کیریئر پر ٹیم کی جیت کو ترجیح دیا کرتے تھے‘ پاکستانی کرکٹ کی تاریخ میں پہلی جوالہ مکھی اس وقت پھٹی جب محض چند میچ کھلا کر ٹیم سے نکالے جانے والے اوپنر قاسم عمر نے یہ راز کھولا کہ کچھ کھلاڑی اپنے بیٹ میں ہیروئن سمگل کرتے ہیں۔ اس کے بعد وسیم اکرم اور وقار یونس نے چند کھلاڑیوں کا گینگ بنا کر پاکستانی کوچ جاوید میاں داد کے خلاف ورلڈ کپ 1999ءسے چند روز قبل بغاوت کردی جس کی وجہ سے میاں داد کو ہٹا دیا گیا‘ 1999ورلڈ کپ کا ہارٹ فیورٹ پاکستان فائنل میں آسٹریلیا سے ایسے ہی ہارا تھا جیسے ان دنوں بھارت سے پاکستان میچ ہارا ہے۔ اس وقت بڑی لے دے ہوئی اور کھلاڑیوں پر بکنے اور سٹے بازی کے الزامات لگے ‘ اس کے بعد پاکستانی ٹاپ کلاس بالر عامر اور اوپنر سلیمان بھارت میںسٹے بازی میں ملوث پائے گئے‘18 مارچ 2007ءمیں ورلڈ کپ میں انتہائی غیر معیاری پرفارمنس پر افریقین پاکستانی کوچ کو ہارٹ اٹیک ہوا ایک ایسا وقت بھی آیا کہ یونس خان کو بورڈ نے کپتان ہوتے ہوئے اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی کوشش کی لیکن اس نے انکار کردیا جس کی وجہ سے اس کا کیریئر ختم کردیا گیاجو لوگ پاکستانی کرکٹ کی تاریخ سے واقف ہیں اور تھوڑی بہت بین الاقوامی سیاست کی سوجھ بوجھ بھی رکھتے ہیں وہ اس نکتہ نظر سے کبھی اتفاق نہیں کریں گے کہ پاکستان بھارت سے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ 2024ءمیں پول میچ نفسیاتی دباﺅ کی وجہ سے ہارا ہے اس میچ کے ہارنے کی وجہ کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی نہیں کوئی اور لوگ ہیں جو پس پردہ ہیں۔ آج جس طرح پاکستان کے تمام ادارے اور قومی اخلاقی اقدار زوال پذیر ہیں پاکستان کی بھارت کے ہاتھوں ایک آسان سا میچ ہارنے کی نہ صرف تحقیق ہونی چاہئے بلکہ پاکستان میں کرکٹ کی زوال پذیری کے تسلسل کا سائنٹیفک بنیادوں پر تجزیہ کرکے مستقبل کے لئے پیش بندی بھی کرنی چاہئے۔پاکستانی ہار میں کھلاڑیوں سے زیادہ قصور کرکٹ بورڈ اور اس کی مینیجمنٹ کا ہے جس میں زیادہ تر لوگ پروفیشنلز کی بجائے کرکٹ سے ناواقف لوگ شامل ہیں جو کھلاڑیوں کو اپنی مرضی سے چلانے کی کوشش کرتے ہیں‘ اسی طرح سفارشی کھلاڑی بہترین کھلاڑیوں کا نہ صرف حق مارتے ہیں بلکہ ان کے مورال کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں‘ یکے بعد دیگرے امریکہ اور بھارت سے ہارنے میں پاکستانی ٹیم کے اندر کھلاڑیوں کی کشمکش یعنی اندرونی سیاست، اقربا پروری اور فیورٹزم کی بنا پر بھرتی کئے گئے سفارشی کھلاڑی، تمام ٹیم میں مورال، جرت اور کوارڈینشن کی کمی جس کی بنا پر پھیلی ہوئی قدرتی مایوسی اور کھلاڑیوں کی اپنے کیریئر کے بارے میں فکرمندی اور کرکٹ بورڈ کی نااہلی اور سیاسی حکومتی کی کرکٹ کو ایک سیاسی ٹول اور کمائی کا ذریعہ سمجھنے جیسے محرکات شامل ہیں اور یہ حال تب تک رہے گا جب تک کھلاڑی میرٹ پر نہیں کھلائے جاتے اور کرکٹ سے سیاست کو خارج نہیں کیا جاتا۔