16-17 اکتوبر 2024 ء کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس کا انعقاد ہونے جا رہا ہے۔ سنٹرل ایشیا گروپ کا یہ اجلاس جسے شنگھائی تعاون تنظیم کا نام دیا گیا، یہ پہلی بار 1996ء میں چین کے دارالحکومت شنگھائی میں منعقد ہوا۔ جس میں سنٹرل ایشیا کے پانچ ممالک نے شرکت کی۔ جن میں روس، تاجکستان، قرغستان، ازبکستان اور چین شامل تھے۔ اس کے انعقاد کا مقصد ابتداء میں خطے کی سکیورٹی، اکنامک کوآپریشن اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنا تھا، بعد ازاں اس میں ڈیفنس، انرجی اور تجارت وغیرہ بھی شامل ہو گئے۔ اس تنظیم کا دوسرا اجلاس 2001 ء میں آستانہ قازقستان میں منعقد ہوا جس میں 15 دیگر ممالک نے بطور آبزرور اجلاس میں شرکت کی۔ 2017 ء میں ہونیوالے اجلاس میں پاکستان اور بھارت بھی شنگھائی تعاون تنظیم کے باقاعدہ رکن بن گئے۔ اس طرح ممبرز کی تعداد 7 ہو گئی جبکہ 2020 ء میں ہونیوالے اجلاس میں ایران بھی شنگھائی تعاون تنظیم کا رکن بن گیا اور اس اجلاس میں منگولیا اور افغانستان نے بطور آبزرور شرکت کی۔ اس طرح رکن ممالک کی تعداد 8 تک پہنچ گئی۔ جولائی 2024ء میں ہونیوالے اجلاس میں بیلا روس اور ترکمانستان بھی SCO کے باقاعدہ رکن بن گئے۔ اس طرح اس تنظیم کے اب تک رکن ممالک کی تعداد 10 تک پہنچ چکی ہے۔اکتوبر 2024ء کا اجلاس جو اسلام آباد میں ہونے جا رہا ہے اس میں چائنا کے صدر، روسی صدر ویلادمیر پیوٹن کے علاوہ ایران، قازقستان، کرغستان اور تاجکستان کے سربراہان شریک ہوں گے‘جب کہ پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف میزبانی کے فرائض سرانجام دیں گے، بھارت کی جانب سے وزیر خارجہ جے شنکر اجلاس میں شریک ہوں گے۔ اس سے قبل بھی ان کے وزیر خارجہ نے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کی تھی۔ جب کہ گزشتہ کئی سالوں سے بھارت کے کسی لیڈر نے پاکستان میں منعقد ہونے والی کسی بین الاقوامی یا علاقائی سمٹ میں شرکت نہیں کی۔ ساؤتھ ایشیا کی تنظیم سارک بھی بھارت ہی کی وجہ سے سرد خانے میں پڑی ہوئی ہے کیونکہ سارک تنظیم کا اجلاس بھارت نہیں ہونے دیتا اور پاکستان سارک کا اجلاس کروائے تو اس میں شریک نہیں ہوتا۔ لہٰذا بھارت کی سردمہری کی وجہ سے سارک تنظیم بے جان ہو چکی ہے۔ مگر اب اچانک نریندر مودی نے اپنی جگہ وزیر خارجہ کو پاکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں بھیجنے کا اعلان کیا تو سب کو ایک حیرت کا احساس ہوا، اگر غور کیا جائے تو وہ موجودہ حالات میں بھارت سنٹرل ایشیا تعاون تنظیم کے اس بڑے سمٹ میں شرکت نہ کرکے مزید تنہائی کا شکار ہونا قطعاً افورڈ نہیں کر سکتا تھا۔ چنانچہ آبزرور ممالک کے علاوہ 9 ممالک کے سربراہان شنگھائی تعاون تنظیم میں شرکت کریں گے جب کہ بھارت کی جانب سے ان کے وزیر خارجہ جے شنکر شریک ہوں گے۔ قارئین! شنگھائی تعاون تنظیم کے اس اجلاس کے ایجنڈے میں علاقائی تعاون، کمیونی کیشن، Counter Terrorism اور دہشت گردی کے خلاف تعاون نمایاں طور پر شامل ہوں گے۔ کیونکہ بھارت اور چین کے درمیان بھی سرحدی تنازعات ہیں، اسی طرح بھارت اور پاکستان کے درمیان بھی سرحدی تنازعات رہے ہیں۔ دوسری جانب افغانستان کے ساتھ پاکستان کے سرحدی تنازعات انتہائی شدت اختیار کر چکے ہیں۔ جس طرح یورپ میں ریجنل گروپس ہیں اور دوسری جانب امریکہ میں ریجنل گروپس، جو باہمی تعاون کے ذریعے اپنے مسائل حل کرتے ہیں، اس لحاظ سے شنگھائی تعاون تنظیم سینٹرل ایشیائی ممالک کو ایک بہت بڑا فورم فراہم کرتی ہے کہ وہ آپس میں بیٹھ کر نہ صرف خطے کے مسائل حل کریں ساتھ میں معیشت، توانائی، ڈینفنس اور سیکیورٹی جیسے معاملات میں بھی پیش رفت کریں اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون بڑھا کر خطے کے تمام رکن ممالک کی معاشی ترقی، دفاعی صلاحیت اور سکیورٹی جیسے مسائل کو باہمی تعاون سے حل کرنے کی کوشش کریں۔ تاکہ سنٹرل ایشیا بھی دنیا میں ایک مضبوط اور پائیدار خطہ بن کر ابھرے۔ یقیناً پاکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کا انعقاد خصوصاً ان نازک حالات میں منعقد ہونا کارآمد ثابت ہو گا جو قیام امن اور معاشی ترقی کا باعث بنے گا۔