پروفیسر ڈاکٹر ناصر الدین اعظم خان کی رحلت سے نصف صدی پر محیط خدمت خلق اور مسیحائی کا ایک عہد تمام ہوا ہے۔ آپ نے اُنیس سو ساٹھ کی دہائی میں طب کے شعبے سے عملی زندگی کا آغاز کیا اور اُس وقت کی معروف شخصیات پروفیسر ڈاکٹر رضا‘ ڈاکٹر ذکیہ منہاس‘ ممتاز فاروق‘ فیروز شاہ‘ ایس اے آر گردیزی‘ سراج الدین‘ طارق نشتر‘ مکرم شاہ‘ ظاہر شاہ‘ نواز‘ عالم آفریدی‘ شفیق اور اشفاق جیسے ہم عصروں کے ہمراہ ایک کہکشاں کی صورت جگماتے رہے‘ آپ نے خیبر میڈیکل کالج کو معیاری درسگاہ بنانے میں اپنی خداداد صلاحیتوں اور علم و تجربے کا بہترین استعمال کیا اور یہی وجہ تھی کہ آپ کی سرپرستی و نگرانی میں ماہر ڈاکٹر وں کی بھرپور حوصلہ افزائی ہوئی‘جو آج خیبرپختونخوا اور پاکستان و بیرون ملک طب کے سرکاری و نجی شعبے میں کارہائے نمایاں سرانجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر ناصر ایسی علمی و فکری شخصیت اور اپنی ذات میں جامعہ تربیت گاہ تھے کہ اُن کی شفقت بھری نگرانی میں کام کرنے کی خواہش اکثر معالجین کرتے۔ ایک وقت میں راقم الحروف کی بھی دعا تھی کہ ڈاکٹر ناصر کی زیرنگرانی سیکھنے کا موقع ملے۔ یہ وہ وقت تھا جب طب کی تعلیم میں ٹاپ پوزیشن حاصل کرنے کے بارے میں فکر مند نہیں تھا اور نہ ہی اپنے نمبروں کے بارے میں فکر مند تھا‘راقم الحروف کا خواب اور خواہش تھی کہ صرف ڈاکٹر ہی سے تربیت حاصل کی جائے یقیناً اُس دور میں صرف ٹاپ سٹوڈنٹس ہی ڈاکٹر ناصر کی زیرنگرانی شامل تربیت ہوسکتے ہیں کیونکہ اُن دنوں طلبہ میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کے لئے مقابلہ بہت سخت ہوتا تھا۔ وہ غریبوں کے ہمدرد تھے اور یہی اُن کی عملی زندگی (طب کی پریکٹس) کا خاصہ تھا۔ راقم الحروف نے طب کی تعلیم کے آخری سال (فائنل ائر) ایم بی بی ایس امتحان کے لئے بہت محنت کی اور عملی زندگی میں اپنے کیریئر کا منتظر تھا۔ قدرت مہربان تھی اور میں نے فائنل ائر میں ٹاپ کیا جس کی وجہ سے ہاؤس جاب کے لئے میرا انتخاب ڈاکٹر ناصر کی وارڈ کے لئے ہوا‘ جو میری دعاؤں اور خواہش کے عین مطابق تھا‘ان کی کلاس‘ میں ہمیشہ خاموشی رہتی تھی‘ کلاس پیر کی صبح ٹھیک آٹھ بجے شروع ہوتی اور کسی کی مجال نہ ہوتی کہ وہ ایک منٹ کی بھی دیر کرے‘ انہیں طب کے موضوع پر دسترس حاصل تھی جو اُن کے لیکچرز سے عیاں ہوتی اور یہی وجہ تھی کہ وہ سارا ہفتہ طلبہ کے درمیان بحث کا موضوع رہتے۔ صرف علمی طور پر علوم پر عبور ہی نہیں رکھتے تھے بلکہ ان کی فصاحت اور بلاغت بھی کمال کی تھی اور آج بھی اُن کے الفاظ (لیکچرز) کی گونج کانوں میں محسوس ہوتی ہے۔ وہ دوران تربیت اکثر کہتے کہ ”آپ چنیدہ اور بہترین ہیں لیکن یہ خوبی آپ کے طرز عمل سے بھی واضح ہونی چاہئے۔ اُن کے لئے طب کے پیشے کی عزت اور وقار برقرار رکھنا اہم تھا؛ وہ عملاً اِس بات پر پختہ یقین رکھتے تھے کہ ڈاکٹروں کو اپنے پیشے سے مخلص ہونا چاہئے‘یہی وجہ تھی کہ مریضوں کا معائنہ کرنے میں پوری توجہ مرکوز کرنے کی ترغیب دیا کرتے تھے۔ طب کی تعلیم اور عملی اطلاق (میڈیکل پریکٹس) کے اخلاقیات سکھانے میں اُن کا کوئی ثانی نہیں تھا‘ ممکن ہے کہ اپنی اصول پسندی کی وجہ سے اُنہوں نے مالی طور پر زیادہ کچھ نہ کمایا ہو لیکن انہوں نے جس طرح طب کے شعبے کو اہمیت دی اور ہمیشہ طب کے شعبے کے وقار اور اِس کی ساکھ و اخلاقیات کے بلند معیار کو حاصل کرنے کا درس دیا‘ ہمیشہ اعلیٰ ترین معیار کو حاصل کرنے کی تعلیم دی‘ ڈاکٹر ناصر اپنی رہائشگاہ پر نجی پریکٹس بھی کرتے تھے اور وہ طب کی سمجھ بوجھ‘ تجربے‘ لگن اور پیشہ وارانہ اخلاقیات پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے اپنی مثال آپ تھے۔ڈاکٹر کی زیرنگرانی جب وارڈز کا راؤنڈ ہوتا تو وارڈ صاف ستھرا اور چمکدار ہوا کرتا تھا۔ صبح کے وقت صفائی و دیگر معاون طبی عملے کی دوڑیں لگی رہتیں‘ وہ ہر کام کو وقت پر اور معیار کے ساتھ کرنے کو پسند کرتے تھے۔ وہ اکثر اس بات پر زور دیا کرتے تھے کہ مریض تشخیص کا انکشاف کرتا ہے لہٰذا اُس کی باتوں کو غور سے سننا چاہئے۔ ان کے نزدیک ماہرین تعلیم کا بہت احترام کیا جاتا تھا۔ وہ طب کا گہرا علم رکھنے کے باوجود بھی مزید جاننے (سیکھنے) کی جستجو رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ اپنی حیات کے آخری دنوں تک بھی انہوں نے درس و تدریس کے عمل کو جاری رکھا اور بطور معلم نہایت ہی مثبت و فقید المثال کردار ادا کیا۔ آپ طبی برادری میں سپاہی کی طرح ڈٹ کر لڑنے کے لئے مشہور تھے یعنی آپ میں انتہا درجے کی مستقل مزاجی پائی جاتی تھی۔ انہیں خیبر میڈیکل کالج کے پرنسپل اور ڈین ہونے کے ساتھ ساتھ آرمی میں بریگیڈئر اور صدر پاکستان کے اعزازی عہدے پر فائز رہنے کا اعزاز بھی حاصل تھا۔ انہوں نے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے نائب صدر کی حیثیت سے طب کے شعبے میں نمایاں خدمات سرانجام دیں جنہیں تادیر یاد رکھا جائے گا۔ (ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
انہوں نے پرائیڈ آف پرفارمنس حاصل کیا اور ایسے بہت سے دیگر قومی اعزازات کے بھی مستحق سمجھے جاتے رہے۔ اُن کی بے لوث خدمت‘ طب کے شعبے سے لگاؤ اُور محنت و مستقل مزاجی کے واقعات اور پہلو اِس قدر زیادہ ہیں کہ اُنہیں ثبت کرنے کے لئے کتاب تصنیف کرنے کی ضرورت ہے‘آپ ایک رول ماڈل رہے‘ طلبہ کو تلقین کرتے کہ وہ کسی دنیاوی (وقتی) فائدہ کی بجائے حق و سچ اور امانت و دیانت کا راستہ اختیار کریں اور طب کے شعبے سے وابستہ تقاضوں کو نبھائیں‘آپ نے لاتعداد طلبہ کو طب کے شعبے اور بالخصوص سفید لباس پہننے پر فخر کرنے کا شعور دیا۔