پاکستان کے بجلی کے شعبے کو بے شمار سنگین اور پیچیدہ مسائل کا سامنا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر الجھنیں اور پیچیدگیاں وہ چیلنجز ہیں جو ورثے میں ملے ہیں، لیکن ان کا حل ایک مشکل لیکن انتہائی قابلِ حصول کام ہے۔ یہ چیلنجز بدانتظامی سے لے کر بجلی کے شعبے میں سیاسی معیشت کے غالب اثر، فیصلہ سازی میں تاخیر اور معاشی ترقی کی کمی جیسے متعدد مسائل کا نتیجہ ہیں۔ معاشی ترقی کی سست روی کی وجہ سے بجلی کی مانگ میں جس اضافے کی توقع تھی وہ پوری نہ ہو سکی‘ بجلی کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمت گھریلو آمدن کو متاثر کرتی ہے جبکہ افراط زر میں اضافے اور برآمدات پر مبنی کاروبار کو غیر مسابقتی بناتی ہے‘ سیاسی معیشت کے غالب کردار کو دیکھتے ہوئے مختلف سیاسی قوتوں کے لئے بھی یہ ایک اہم مسئلہ ہے خاص طور پر جب بجلی کے بل جون سے اگست تک زیادہ استعمال کے مہینوں میں بڑھنے لگتے ہیں‘ ہم بجلی کی لاگت کم کرنے کے لئے پالیسیاں شروع کرکے اس مسئلے کا ازالہ کرتے رہتے ہیں، مثال کے طور پر درآمدی ایندھن کی بجائے مقامی ایندھن وغیرہ کے استعمال سے جبکہ پیداواری لاگت میں بجلی کے جزو کو گزشتہ سالوں میں کافی حد تک کم کر دیا گیا ہے‘ ٹیرف کی بحالی ایک ایسا عمل ہے جو ہر سال جون میں ہوتا ہے۔ ری بیسنگ اگلے مالی سال کے لئے بجلی کے متوقع ٹیرف کا تعین ہے۔ اس کا درست تعین آنے والے بارہ مہینوں میں بجلی کے مستحکم نرخوں کا باعث بنتا ہے۔ ہمارے معاملے میں ٹیرف کا تعین کرنے والے اہم عوامل ہیں پاکستانی روپیہ۔ امریکی ڈالر کی بنیاد پر شرح سود، پاکستانی روپے کی بنیاد پر شرح سود اور ایندھن کی قیمت جو مقامی کوئلہ، درآمدی کوئلہ اور آر ایل این جی وغیرہ ہو سکتا ہے۔ بجلی کے نرخوں کی تازہ ترین ری بیسنگ جولائی 2024 کے بعد سے نافذ العمل ہوگی اور اس کا ماہانہ بنیادوں پر زیادہ تر بجلی صارفین پر معمولی اثر پڑے گا۔اس سال نئے ٹیرف کے تعین کے بعد، 16.8 ملین پروٹیکٹڈ صارفین کے لئے جو تمام گھریلو صارفین کا 58 فیصد بنتے ہیں، جون 2024 کے مقابلے میں ماہانہ بنیاد پر متوقع اضافہ 2 فیصد سے کم ہے۔ اسی طرح اسی مدت کے لئے نان پروٹیکٹڈ صارفین کے لئے اضافہ اوسطاً 9 فیصد ہے۔ مزید اہم بات یہ ہے کہ جیسے جیسے معیشت میں بہتری آتی ہے اور بجلی کی طلب میں اضافہ ہوتا ہے جبکہ شرح سود میں کمی آنا شروع ہوتی ہے، بجلی کے نرخوں میں کمی کی توقع کی جاتی ہے کیونکہ ضروری سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی جاتی ہے‘ جنوری 2025 تک توقع ہے کہ جون 2024 کے مقابلے میں تمام بشمول پروٹیکٹڈ اور نان پروٹیکٹڈ صارفین دونوں کے لئے ٹیرف میں اوسطاً 3 فیصد کمی ہو جائے
گی۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ معیشت بہتر ہونا شروع ہو گئی ہے اور نرم مالیاتی پالیسیاں اب اثر دکھانا شروع کر رہی ہیں، بجلی کی قیمتیں عروج پر پہنچ چکی ہیں۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اگر ہم اقتصادی ترقی کو برقرار رکھ سکتے ہیں، تو بجلی کی قیمتیں اس مقام سے کم ہو سکتی ہیں۔ بہتر معاشی ماحول کے ساتھ ساتھ ہم جس اصلاحاتی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں وہ ناکامیوں کو کم کرنے اور مارکیٹ پر مبنی نظام کی طرف بڑھنے میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔ کئی سالوں بعد صنعتی ٹیرف میں کمی کی گئی ہے تاکہ صنعتوں کو پیداوار میں اضافہ کرنے کی ترغیب دی جا سکے، اور نتیجتاً اس سے روزگار میں اضافہ ہو۔ ہم صنعتوں کے لئے ٹیرف میں کمی اور دیگر اسکیموں کی حمایت جاری رکھیں گے تاکہ ملک کی اقتصادی ترقی کو متحرک کرنے کیلئے صنعتی شعبے کی مدد کی جاسکے۔ پاکستانی عوام کو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ہمارے پاس قابل رشک توانائی کا مرکب ہے جس میں نصف سے زیادہ بجلی کی پیداوار کم کاربن پیدا کرنے والے ذرائع جیسے ہائیڈل، نیوکلیئر اور دیگر قابل تجدید ذرائع سے ہوتی ہے‘ ہماری بجلی پیدا کرنے والی ایندھن کی قیمت 10.9 روپے فی کلو واٹ ہے (یہ ہائیڈل پاور کی وجہ سے گرمیوں میں 9 روپے فی کلو واٹ تک کم ہو جاتی ہے)۔ گزشتہ چند سالوں میں نئی صلاحیت کے اضافے کی وجہ سے جو مستقبل میں ترقی کو سہارا دے گا، صلاحیت کی لاگت بڑھ کر 18.4 روپے فی کلو واٹ فی گھنٹہ ہو گئی ہے۔ اگرچہ ہم مختلف مداخلتوں کے ذریعے اسے ہموار کرنے یا کم کرنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مزید برآں، ٹرانسمیشن کی لاگت 1.54 روپے فی کلو واٹ فی گھنٹہ کی حد میں ہے جبکہ تقسیم کار کمپنیوں سے منسلک لاگت 4.6 روپے فی کلو واٹ فی گھنٹہ کی رینج میں ہے۔ یہ سب پیدا ہونے والی بجلی کے پورے پول کے لئے اوسطاً 35.5 روپے فی کلو واٹ فی گھنٹہ لاگت میں جمع ہوتی ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ تقریباً تین چوتھائی بجلی مقامی وسائل سے پیدا ہوتی ہے جو ملک کے لئے توانائی کی تحفظ کو یقینی بناتی ہے۔
مقامی ذرائع کے استعمال کی مقدار میں مزید اضافہ ہو گا کیونکہ مزید ہائیڈل اور نیوکلیئر پراجیکٹس آن لائن ہوں گے جبکہ درآمدی کوئلے پر کام کرنے والے پراجیکٹس کو تھر کے مقامی کوئلے میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ فرنس آئل پلانٹس جن کی معیاد 2027 اور 2034 کے درمیان ختم ہونے والی ہے، ان سے وابستہ ہائی انرجی کاسٹ کی وجہ سے شاہد ہی استعمال کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں سی پیک کے ذریعے انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری نے پاکستان کو مستقبل میں پائیدار ترقی سے فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں رکھا ہے‘ ان پراجیکٹس کے فرنٹ لوڈڈ سرمائے کے اجزاء یقینی طور پر اس وقت صارفین کے کیش فلو پر ایک دباؤ ہیں اور ہم اسے حل کرنے پر کام کر رہے ہیں تاہم پروجیکٹس کیلئے قرضوں کی اکثریت اگلے چند سالوں میں ختم ہو جائے گی ان منصوبوں سے پیداوار کی کل لاگت کافی حد تک کم ہو جائے گی اور اسی طرح بجلی کی مجموعی لاگت بھی بڑھ جائیگی‘ ہمیں اس بات کی تعریف کرنی چاہئے کہ بڑے پیمانے پر بنیادی ڈھانچے کے منصوبے طویل مدتی ہیں اور ان کی لائف 30 سال سے زیادہ ہے اور اس طرح مستقبل میں سستی بجلی پیدا کرنا جاری رکھیں گے۔ اس کیلئے مارکیٹ پر مبنی اصلاحات کے ذریعے زیادہ طلب پیدا کرنے اور ٹیرف کو اس طرح معقول بنانے پر کام کرنے کی ضرورت ہے کہ کسی بھی قسم کی سبسڈی اور مشکلات آہستہ آہستہ ختم ہو جائیں یہ ایک صنعتی پالیسی بنانے کا موقع بھی فراہم کرتی ہے تاکہ ملک میں موجود اضافی سپلائی کو بروئے کار لایا جا سکے۔ ہم نئی ڈیمانڈ کی تشکیل پر توجہ مرکوز کرتے رہیں گے، چاہے وہ برقی نقل و حرکت کے حل کو تیز کرنے کے ذریعے ہو یا نئی صنعتی طلب کی تخلیق کو دلانے کے ذریعے ہو ہمیں کارکردگی پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے اور اس کیلئے بجلی کی قیمتوں کے لحاظ سے مرکزی ماڈل سے مارکیٹ پر مبنی ماڈل کی طرف جانے کی ضرورت ہے‘ حکومت ان کو ترغیب دیکر کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے اصلاحات پر کام کر رہی ہے‘ہمیں کسی بھی کارکردگی اور پیداواری فوائد کو متاثر کئے بغیر مراعات فراہم کرنے کے پرانے اقدامات کو روکنا چاہئے‘ہمارے پاس ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن میں کافی خرابیاں ہیں‘ حکومت بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے ذریعے شمال‘ جنوب ٹرانسمیشن کی رکاوٹ کو ختم کرنے کے ذریعے اسے حل کرنے پر کام کر رہی ہے‘یہ بتانا افسوسناک ہے کہ سستی بجلی جو جنوب میں پیدا کی جا سکتی تھی، اس طرح کی رکاوٹوں کی وجہ سے استعمال نہیں کی جا سکتی جس سے صارفین کو اربوں کا نقصان ہو رہا ہے‘ ضرورت اس امر کی ہے کہ صارفین کے مفادات کو پورا کرنے کیلئے صحیح توازن حاصل کیا جائے۔