قارئین کی پسند کو مدنظر رکھتے ہوئے آج کا شائع ہونے والا اقتباس مشہور مصنف اور براڈکاسٹر رضا علی عابدی کے نشر پروگرام کا منتخب حصہ ہے جو کہ قارئین کے لئے پیش خدمت ہے۔ رضا علی عابدی بتاتے ہیں کہ1879ء میں ریلوے لائن سے متعلق ہونے والے فیصلے پر عملدرآمد کس رفتار سے ہوا ان کا کہنا ہے کہ رک سے سبی تک لائن ڈالنے کا کام جس تیزی سے ہوا اس پر خود انجینئر بھی حیران تھے‘ 18ستمبر1879ء کو وائسرائے کونسل نے قندہار اسٹیٹ ریلوے کی تعمیر کافیصلہ کیا‘21ستمبر کو تار پہنچا کہ لائن ڈال دی جائے‘ ستمبر کے آخر تک انجینئروں کا عملہ پہنچ گیا اور مزدوروں کی بھرتی شروع ہوئی‘اوزار بننے لگے‘محنت کشوں کی تربیت ہونے لگی‘دریائی بند باندھے جانے لگے اورصرف چار مہینوں میں قندہار ریلوے کا پہلا سیکشن فوج کے لئے کھل گیا‘ لیکن آگے ریگستان تھا اور کام زیادہ مشکل تھا‘ اب سبی کی طرف بڑھنے کے لئے لائن کی تعمیر پر ساڑھے تین ہزار مزدور لگا دیئے گئے جیسے جیسے وہ کام سیکھتے گئے کام کی رفتار تیز ہوتی گئی‘ دسمبر1879ء میں ایک ماہ میں اسی کلومیٹر لائن پڑ گئی جوں جوں سبی قریب آتا جاتا تھا مزدوروں
کا تجربہ اور کام کی رفتار‘ دونوں بڑھتے جاتے تھے 1880ء کے پہلے دن صرف آٹھ گھنٹوں میں چار کلو میٹر لائن پڑی13جنوری کو یوں لگا جیسے فلم تیز چلا دی گئی ہو اس روز آٹھ گھنٹوں میں بات تقریباً سات کلومیٹر تک جا پہنچی اور 14 جنوری1880ء کو اس لائن نے سبی پہنچ کے دم لیا‘ یہ سارا کام صرف ایک سو ایک دن میں پورا ہوا‘اب کوئٹہ215 کلومیٹر دور تھا‘فاصلے کاشمار ممکن تھا دشواریوں کا کوئی شمار نہ تھا‘سبی سے کوئٹہ تک درہ بولان کے راستے سڑک تو موجود تھی لیکن جب سروے کیا گیا تو ماہروں نے بتایا کہ درے میں ریلوے لائن بچھانا ممکن نہیں کیونکہ چڑھائی بہت ہے‘البتہ ہرنائی کے راستے چڑھائی کم تھی موڑ بھی زیادہ نہیں تھے لیکن وہاں کوئی سڑک نہیں تھی انجینئروں نے اس کے باوجود ہرنائی ہی کی طرف لائن ڈالنے کا فیصلہ کرلیا افغانستان کی جانب ریلوے لائن ڈالنے
کاکام نہ رکنا تھا نہ رکا‘ یہاں تک کہ راہ میں وہ مقام آگیا جو چھپررفٹ کے نام سے مشہور تھا اور لائن پڑ جانے کے بعد ایک عالم اسے دیکھنے جایا کرتاتھا اس لائن کے راستے میں ایک ایسا پہاڑ تھا جس کے اندر سرنگ کھودی جاسکتی تھی لیکن پہاڑ بیچ میں یوں کٹا ہوا تھا جیسے مکھن کی ٹکیا درمیان سے کاٹ کر دونوں ٹکڑے دور سرکا دیئے جائیں اس کا حل یہ نکالا گیا کہ دونوں طرف سرنگ کھودی گئی اور درمیان کے خلاء کو پل کے ذریعے پاٹ دیا گیا جب ٹرین چلی تو منظر یہ تھا کہ گاڑی آسمان کو چھونے والی ایک دیوار سے نکلتی تھی اور سینکڑوں میٹر اونچا پل پار کرکے سامنے والی دوسری دیوار میں داخل ہو جاتی تھی پل بنانے کے لئے وہاں تک جانا مشکل تھا اتنا مشکل کہ وہاں تک سڑک تو کیا پگڈنڈی تراشنی مشکل تھی آخر انجینئروں نے پہاڑ کے پہلوؤں میں لوہے کی سلاخیں گاڑیں اور ان کے اوپر تختے جمائے جن سے سڑک کا کام لیاگیا باقی مزدور کمر میں رسیاں باندھ کر اوپر سے اترتے تھے اور پتھر کے سینے میں شگاف ڈالتے تھے آخر دونوں سرنگیں کھلیں درمیان کے کٹاؤ میں پل بنا۔ انجینئروں کو خوب اندازہ تھا کہ یہ چھپر رفٹ والا راستہ راس آنے والا نہیں لہٰذا انہوں نے درہ بولان کے راستے دوسری لائن ڈالنی شروع کر دی یہ دونوں لائنیں مارچ1887ء میں بوستان کے مقام پر ملیں۔