2022ء سال کے آ خری ماہ کے دوران قطر میں ہونے والا ورلڈ فٹ بال ٹورنامنٹ عالمی خبروں پر چھایا رہاعام خیال یہ تھا کہ ماضی میں جن ممالک کی فٹبال ٹیم ورلڈ کپ جیتتی رہی ہیں ان میں سے ہی کوئی ٹیم اب کی دفعہ بھی یہ کپ جیتے گی پر ایساہوا نہیں۔ برازیل کی ٹیم جس کے کافی چرچے تھے ٹورنامنٹ کے ابتدائی مراحل میں ہی مقابلوں سے آؤٹ ہو گئی۔اسی طرح فرانس سپین اٹلی جرمنی اور انگلینڈ کی ٹیموں نے بھی کوئی خاص کھیل پیش نہ کیا۔پرتگال کے رونالڈو کے بارے کہا جاتا تھا کہ وہ تن تنہا بھی اپنی ٹیم کو فتح سے ہمکنار کرا سکتا ہے پر وہ بھی اس ٹورنامنٹ میں معیاری کھیل نہ پیش کر سکا جس کی کہ اس سے توقع کی جارہی تھی۔ اس ٹورنامنٹ کے میچوں کے نتائج سے واضح ہو جاتا ہے کہ اب فٹبال پر صرف چند لاطینی اور یورپی ممالک کی اجارہ داری نہیں رہی اور اب دنیا کے کئی ممالک اس قابل ہو چکے ہیں کہ وہ ان پانچ چھ ممالک کو مات دے
سکیں جو گزشتہ چالیس پچاس برسوں سے فٹبال میں ورلڈ چمپئن بنتے آ رہے تھے۔کل تک کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ سعودی عرب، کروشیا، جاپان یا مراکش کی فٹبال کی ٹیمیں دنیا کی صف اوّل کی ٹیموں کو پچھاڑ سکتی ہیں۔اس تبدیلی کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ دنیا میں فٹبال کی مقبولیت کے بعد کئی ممالک میں اسے کھیلا جانے لگا ہے اور الیکٹرانک میڈیا میں عالمی سطح کی ٹیموں کی میچوں کو ٹیلی کاسٹ کرنے سے کئی ممالک کے جواں سال کھلاڑی اس کھیل کی طرف راغب ہوئے ہیں اور انہوں نے اس کھیل کی باریکیوں کو بہ آسانی سیکھا ہے۔ بہ الفاظ دیگر اس کی مقبولیت کو چار چاند لگانے میں الیکٹرانک میڈیا کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔ افسوس کہ ہم نے اس ضمن میں کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا۔ حالانکہ بعض ممالک یعنی مراکش، سعودی عرب، جاپان اور افریقہ کے کئی ممالک سے تو ہم فٹبال میں کافی آ گے تھے۔دوسری بات یہ ہے کہ جن جن ممالک میں فٹبال ایک عرصے سے کھیلا جا رہا ہے۔ وہ فٹبال کے کھلاڑیوں کو اچھا خاصا معاوضہ دیتے ہیں اور اس مالی کشش نے بھی کئی ممالک کے کھلاڑیوں کو فٹبال کی طرف کھینچا ہے۔اب کچھ عالمی امور کا تذکرہ ہوجائے جہاں امریکہ کو خدشہ ہے کہ چین سعودی عرب کے ذریعے علاقے میں اپنا سیاسی اور عسکری اثر و نفوذ دھیرے دھیرے بڑھانے لگا ہے۔تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ چین کے حکمرانوں کی سیاسی دانشمندی اور بصیرت کا
جواب نہیں ہے اور تقریبا ًتقریباً ہر امریکی صدر اپنے وقت کی چینی لیڈرشپ کے آگے طفل مکتب ثابت ہوا ہے اور جو بائڈن بھی ان میں شامل ہے۔ ہاں ماضی بعید میں بعض ایسے امریکی صدور ضرور گزرے ہیں جن کی دور اندیشی مثالی تھی مثلا ًابراہام لنکن، جارج واشنگٹن،جیفرسن، روزویلٹ، آئزن ہاوروغیرہ۔ امریکہ کے بارے میں تاریخ دانوں اور سیاسی مبصرین کی رائے یہ ہے کہ بلا شبہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اس نے بے مثال ترقی کی ہے پر جہاں تک اس کے حکمرانوں کی سیاسی بصیرت سیاسی فہم یا سیاسی دور اندیشی کا تعلق ہے اس میں ہر دور میں کئی خامیاں پائی گئی ہیں اس سلسلے میں البتہ برطانوی حکمرانوں کی کافی تعریف کی جاتی ہے اور یہ کہا جاتاہے کہ افغانستان اور مشرق وسطیٰ کیلئے اپنی خارجہ پالیسی مرتب کرتے وقت اگر امریکہ برطانیہ سے پیشگی صلاح و مشورہ کرتا تو ماضی میں اسے کئی مواقع پر خفت نہ اُٹھانا پڑتی۔