افغان دارالحکومت کے ایک ہوٹل پر ہونے والے حملے کے نتیجے میں کم از کم تین افراد ہلاک اور اکیس زخمی ہو گئے ہیں۔ چین کی کاروباری شخصیات زیادہ تر اسی ہوٹل میں قیام پذیر ہوتی ہیں۔دارالحکومت کابل میں ایک اطالوی این جی او کے زیر انتظام چلنے والے ہسپتال نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تک ہمارے پاس اکیس زخمی لائے گئے ہیں اور ان میں تین افراد پہلے ہی ہلاک ہو چکے تھے۔ دوسری جانب طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس حملے کے دوران دو غیر ملکیوں نے ہوٹل کی عمارت سے چھلانگیں لگا دی تھیں اور وہ اس کے نتیجے میں زخمی ہوئے ہیں۔مقامی رہائشیوں کے مطابق انہوں نے دھماکوں اور فائرنگ کی آوازیں سنیں جبکہ ہوٹل کی عمارت سے دھواں اٹھتا ہوا دیکھا گیا۔ابھی تک کسی بھی گروہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ملک میں موجود عسکریت پسند تنظیم متعدد حملے کر چکی ہے۔حال ہی میں کابل میں تعینات پاکستانی ناظم الامور کو بھی قتل کرنے کی کوشش کی گئی تھی اور اس حملے کی ذمہ داری بھی ایک عسکریت پسند تنظیم نے قبول کی تھی۔ طالبان اس تنظیم کو ایک چھوٹا خطرہ قرار دیتے ہیں لیکن مبصرین کے مطابق اس وقت طالبان کے لیے سب سے بڑا خطرہ یہی تنظیم ہی ہے اور وہ اس کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔اس طرح دیکھا جائے تو ایک بار پھر علاقائی امن کے ساتھ کھیل کھیلا جارہاہے اور چین کے مفادات کو مختلف ممالک میں نقصان پہنچانے کا سلسلہ شروع کیاگیا ہے۔ چاہے یہ پاکستان میں ہوں یا افغانستان میں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جن ممالک کا مقابلہ چین کے ساتھ عالمی سطح پر جاری ہے انہوں نے ہی ایسا کھیل شروع کر رکھا ہے کہ خطے میں امن وامان کی صورتحال اس حد تک متاثر ہو کہ چین یہاں پر ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے اپنا اثر رسوخ نہ بڑھائے۔اب یہ خطے کے ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مضبوط بنائیں اور کسی بھی طرح اس سازش کا شکار نہ ہوں جو چین مخالف ممالک کرنے کی کوشش میں ہیں۔ ایسے حالات میں کہ جب دنیا کو مختلف قسم کے مسائل کا سامنا ہے، امریکہ اور اس کے ہم خیال ممالک کی جانب سے چین کے خلاف اپنی سرگرمیوں کو تیز کرنے سے نقصانات میں اضافے کا خدشہ ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں بہت سے ممالک کو غذائی عدم تحفظ کا بھی سامنا ہیجن میں پاکستان بھی شامل ہے۔وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی نے کہا ہے کہ ایک زرعی ملک ہونے کے ناطے پاکستان کو غذائی قلت کے 3 گنا بوجھ کا سامنا ہے۔وزارت نیشنل فوڈ سیکورٹی نے کہا ہے کہ حکومت غذائی قلت کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے پالیسی سازی سمیت اہم انتظامی قدامات کر رہی ہے، ایک زرعی ملک ہونے کے ناطے پاکستان کو غذائی قلت کے 3 گنا بوجھ کا سامنا ہے جس سے ملکی آبادی خاص طور پر 5 سال سے کم عمر کے بچے، خواتین اور نوعمر افراد سب سے زیادہ متاثر ہیں۔اس طرح یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ایک طرف دنیا کو غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے تو دوسری جانب عالمی طاقتوں کی رسہ کشی بھی تیز ہوئی ہے جس کا سراسر نقصان ترقی پذیر ممالک کو ہورہا ہے جس طرح ماحولیاتی آلودگی کا باعث بننے والے دوسرے ممالک تھے اور ان کے اثرات دیگر ممالک پر مرتب ہوئے اب بین الاقوامی سطح پر طاقت اور اثر و رسوخ میں اضافے کی جو دوڑ شروع ہو چکی ہے اس میں بھی ان ممالک کو زیادہ نقصان کا سامنا ہو سکتا ہے جو غیر جانبدار رہنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہوا اور یوں دونوں طرف سے ان پر دباؤ ہو گا کہ وہ کسی ایک بلاک میں شامل ہوں یعنی ایک طرح سے پھر دنیا سرد جنگ کی لپیٹ میں آ چکی ہے۔