کوئی مانتا نہیں 

سوچ رہاہوں کہ ہوائی فائرنگ کے حوالے سے دسیوں کالموں کی پیش کاری کے بعد اسی عنوان پر ایک اور مضمون ثبت کردوں۔مگر یہاں تو آئے دن کبھی کس مسئلے میں آگاہی مہم کی ضرورت ہوتی ہے اور کبھی کس سلسلے میں پبلک کو آگاہی دلوانا ضروری ہے ۔یعنی مطلب یہ ہوا کہ یہاں مسائل ہی مسائل ہیں۔ وہ مسئلے جن کابراہِ راست تعلق عوام کو سمجھانے اور کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے سے ہے۔مثلاً بچوں کو ان کی پیدائش کے فوراً بعد کے ٹیکے وقت پرلگائیں کورونا کے روکنے انجکشن لگانا چاہئیں اور ایڈز جیسے امراض سے بچ کر چلیں۔ہوائی فائرنگ کرنا چھوڑ دیں۔مگر یہاں اگر سرکاری عملہ کا اگر قصور ہو نہ ہو مگر ہمارے عوام اپنی لا علمی اور نا سمجھی کی وجہ سے بہت سے کام از خود کرتے ہیں جن کو ترک کرنا ضروری ہے۔ پھر وہ کام نہیں کرتے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کریں۔سو آگاہی مہم چلانا اور کس کس مہم پر سمجھ بوجھ دلوانا ہے اس پر آدمی پریشانی کا شکار ہو جاتا ہے۔یہاں تو ایک مہم نہیں مہمات ہیں جن کو سر کرنا ہے۔آئے دن پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیمیں گلی کوچوں میں گردش کر رہی ہوتی ہیں۔ان کے ساتھ باوردی پولیس اہلکار بھی موجود ہوتے ہیں۔موٹر سائیل ٹھیک کروا رہا تھا تووہاں مجھ سے پہلے ایک اور موٹر سائیکل کھڑا تھا۔جس کے پیچھے دو پہیے اور دو سیٹیں تھیں۔گویا تین پہیوں والا موٹر سائیکل تھا۔ میں نے اس گاڑی والے سے سوالات کئے۔کہاآپ نے پیچھے دو سیٹیں رکھی ہیں اس کی کیاوجہ ہے۔وہ اس لئے کہ وہ بظاہر معذور نظر نہیں آرہا تھا۔ کیونکہ اکثر اوقات اس قسم کی گاڑیاں سپیشل افراد ہی چلاتے ہیں۔اس کا ایک پاؤں کام نہیں کررہا تھا۔مگروہ دوسرے پاؤں کے سہارے یوں کھڑا تھا کہ دیکھنے والے کو شک بھی نہ ہو کہ یہ معذور ہے۔اس نے کہا میں پولیو میں بیمار ہوا تھا اور اب تک معذور ہوں۔ایک پاؤں کام کرتا ہے اور دوسرا نہیں کرتا۔میں نے اس کے ساتھ ہمدری کے دو ایک بول بولے اور جلدی چپ ہوگیا کیونکہ بعض اوقات زیادہ ہمدری جتلانا گویا اس کے غم کو نئے سرے سے تازہ کرنے والی بات ہوتی ہے۔وہ احمد فراز نے نہیں کہا تھا کہ ”سادہ دل چارہ گروں کو نہیں معلوم فراز۔ بعض اوقات دلاسا بھی بلا ہوتا ہے“۔میں نے پوچھا کہ یہ پولیو پولیو ہو رہی ہے۔یہ کیا بیماری ہے یہ توبچوں کی بیماری  ہے۔آپ کا اس کے ساتھ کیا کام ہے۔آپ تو تنو مند نوجوان ہیں۔اس نے مجھے سمجھایا کہ میری یہ معذوری بچپن سے ہے جب میں چھوٹا تھا۔مجھے یاد نہیں مگر ماں باپ کہتے ہیں کہ اچانک میری ایک ٹانگ نے کام کرناچھوڑدیا تھا۔تب سے میں اس حال میں ہوں۔پھر اس نے مجھے ایک جملہ کہا جو میرے دماغ میں جھٹ سے بیٹھ گیا۔ اس نے کہا پولیو بچوں کا فالج ہے۔اس پر میں ساری بات سمجھ گیا۔ مگر کون آگاہی دلوائے ان شہریوں کو جو اس مہم کو برا جانتے ہیں۔ایسے کئی مسائل ہیں بلکہ ان گنت ہیں جو ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح اندر اندر چاٹ رہے ہیں۔کہو ہوائی فائرنگ نہ کرو تو یہ کہیں گے اب تو ہم نہ کرتے بھی آمنے سامنے نشانہ تاک کر فائرنگ کریں گے۔ان سے کہہ دو کورونا ویکسین لگاؤ تو یہ کہتے ہیں کورونا ہی جھوٹ ہے۔ حالانکہ اب بھی لوگوں کو کورونا ہو رہا ہے۔مگر شکر ہے کہ اس کے مریض کم تعداد میں ہیں۔بلکہ دو سال پہلے کے بگڑی ہوئی صحت والے کورونا کے بعض مریض اب تک مکمل صحت یاب نہیں ہوئے۔یہ مہم چلائیں کہ دیواروں پر اشتہارات مت لکھیں اپنی سرزمین کو اپنے دیوار ودر کو خراب نہ کریں۔ مگر یہ باز نہیں آئیں گے کہو پھول مت توڑو اس کے سو سو جوابات ان کے پاس ہوں گے۔ جواب دیں گے کہ خزاں کا موسم ہے پتے جھڑ رہے ہیں۔پھول توڑو نہ توڑو مگر خزاں کی تیز ہوا کے زور پر خود بخود جو گر رہے ہیں۔اگر خود ہی گر کر یہ پھول پامال ہو رہے ہیں تو ہم خود ان کو کیوں نہ شاخ سے اُتار لیں۔ہم وہی کام کریں گے جس کے بارے میں خاص ہمیں منع کیا جائے گا۔کسی کے آکھے میں نہیں ہیں۔کہو کہ نشہ مت کرو مگر اس بات کو جھٹلا دیں گے۔بولو سگریٹ نہ پیئیں مگر اس ہدایت کو پاؤں تلے روند دیں گے۔