مشہور سفر نامہ نگار اور ادیب مستنصر حسین تارڑ پرانے زمانے کا کھوج لگانے میں ماہر ہیں اور یہی عنصر ان کی تحریروں کو ایک انفرادیت بخشتا ہے، ایک مقام پر وہ لکھتے ہیں ”جب موسم گرما کا آغاز ہوتا ہے دھوپ کی شدت بڑھنے لگتی ہے تو مجھے شمال کی جانب سے صدائیں آنے لگتی ہیں‘ فیری میڈو زکی برفیں پگھلنے لگتی ہیں تو ان میں سے سٹرابیری کا پہلا پھول برف میں سے ظاہر ہوتا ہے تو وہ مجھے پکارتا ہے بہت دنوں سے نہیں آئے‘ پریوں کی جس چراگاہ میں تم نے آج سے تیس برس پیشتر قدم رکھا تھا اور دنیا کے اس سب سے خوبصورت منظر کوعام پاکستانیوں سے متعارف کروایا تھا یہ تمہارے منتظر ہیں‘ تمہارے نام کی جھیل تمہارے لئے اداس ہے‘ چلے آؤ۔نانگا پربت‘ کے ٹو‘ مشابرم‘ گشابرم‘ براڈ پیک کی چوٹیاں تمہیں پھر سے اپنا مہمان کرنا چاہتی ہیں‘ سنولیک‘ جھیل کرومبر‘ رتی گلی جھیل‘ جھیل سرال‘ جھیل دودی پت تمہاری راہ دیکھ رہی ہیں‘ یہاں تک کہ دیوسائی کے ہمالیائی بھورے ریچھ اپنی سرمائی نیند پوری کرنے کے بعد غاروں سے باہر نکل آئے ہیں اور ان پھولوں کی مہک پرمست ہوتے ہیں جو دنیا میں اور کہیں نہیں کھلتے اور تو اور دیوسائی کے جادوئی بادل بھی تب برسیں گے جب تم آؤ گے کب آؤ گے؟ ہم جانتے ہیں کہ تم بہت بوڑھے ہوگئے ہو لیکن ایک بارپھراپنے شمال کی وادیوں میں آجاؤ‘ہم تمہیں دوبارہ گھر واپس نہیں جانے دینگے‘اس طور جب سرما کی شدت کا آغاز ہوتا ہے ہر شے دھند کی سفیدی میں روپوش ہونے لگتی ہے‘ ٹھٹھرتے سورج کی زرد کرنیں ماڈل ٹاؤن پارک کی گھاس کی پتیوں پر ٹھہرے ہوئے شبنم کے قطروں پر پڑتی ہیں تو گھاس میں موتی دمکنے لگتے ہیں اورپھر کہرے کی چادر بچھنے لگتی ہے‘ میرے کہولت زدہ بدن کے اندر وہ شبنم کے موتی منتقل ہو جاتے ہیں اور چراغوں کی مانند روشن ہو جاتے ہیں اور تب میرا بڑھاپا عارضی رخصت پر چلا جاتا ہے‘ اس کی جگہ جوانی کی نوخیزی کی کونپلیں پھوٹنے لگتی ہیں اور یہ وہی دن ہوتے ہیں جب لاہور کے قدیم درودیوار‘کھنڈرہوتی حویلیاں‘ مسمار ہوتے جھروکے‘ بمشکل قائم محرابیں اور پرانی منقش مسجدیں مجھے بلانے لگتی ہیں کہ آؤ تمہارے پاس اب وقت کم ہے‘ عمر کی نقدی ختم ہونے کو ہے تو آجاؤ ایک اور لاہور آوارگی لکھنے کیلئے ہمت کرکے چلے آؤ‘ تمہارے بعد ہماری داستانیں
اور اجاڑ پن اور بربادیوں کے قصے کون لکھے گا کون جانے کل ہم پھر نہ ہوں‘آج ہی آجاؤ‘آج لاہور کی سردیوں کی پہلی دھند آلود سویر تھی‘ پہلا اتوار تھا ریس کورس پارک میں جاپان کے حیرتوں بھرے پھولوں گل داؤدی کی نمائش کا آغاز گویا لاہور کے موسم سرما کا باقاعدہ آغاز تھا کہ گل داؤدی وہ واحد پھول ہے جوصرف ان مہینوں میں کھلتا ہے‘ اسی لئے کوئین آف ونٹر یعنی سرماکی ملکہ کہلاتا ہے‘ایک سویر شہر لاہور کی یاترا کیلئے مختلف تجاویزسامنے آنے لگیں‘میں نے کہا کہ میرا جی چاہتا ہے کہ اپنے پرانے چیمبر لین روڈ پر واقع مکان کے بیت چکے دنوں کی کچھ یادیں تازہ کروں‘ کرشنا گلی‘ گاندھی سکوائر اورگوروارجن نگر کی قدیم حویلیاں اور چوبارے دیکھوں‘ پھر میوہسپتال کے راستے دھنی رام روڈ کے گھر دیکھوں‘ دھنی رام روڈ‘ ڈاکٹر نسیم نے ناک چڑھا کر کہا وہاں کیا ہے؟ وہاں کسی زمانے میں ڈائمنڈ ٹیلر کی دکان ہوا کرتی تھی جس نے انگلستان جانے سے پیشتر ماموں جان کی فرمائش پر پوری دودرجن شرٹس الگ کالروں والی بالکل انگریزوں ایسی تیار کی تھیں جو میں نے کبھی نہ پہنیں کہ الگ کالر کی عادت نہ ہو سکی پھر وہاں کپور تھلہ ٹیلر‘ کا درزی خانہ تھا جسکے ماسٹر صاحب نے میری پہلی اچکن ٹیلر کی‘ ماسٹر صاحب نے ناپ لیتے ہوئے ان راجوں مہاراجوں کے قصے چھیڑ دیئے جو ان سے اچکنیں سلوایا کرتے تھے‘ تارڑ صاحب‘ ڈاکٹر انیس نے ذرا ناگواری سے کہا ”معاف کیجئے گا ہم آپکے ساٹھ برس پیشتر کے درزیوں کی تاریخ میں دلچسپی نہیں رکھتے‘ تب نسیم نے ترپ کا پتا پھینکا‘تارڑ صاحب جو مزا چھجو دے چوبارے اوہ نہ بلخ نہ بخارے‘ چھجودا چوبارہ نہیں دیکھنا؟ دنیا کے قدیم شہروں میں جتنی کہاوتیں مقولے یا ضرب المثل چلی آتی ہیں ان میں سے بیشترتاریخی حقائق پر مبنی ہوتی ہیں اور ہم ان سے آگاہ نہیں ہوتے‘میں بچپن سے یہ ضرب
المثل سنتا آیا تھا اور یہ روزمرہ کی گفتگو میں سوچے سمجھے بغیر استعمال بھی کرتا چلا آیاتھا ایک پرانے لاہوریئے نے بتایا کہ یہ کہیں ہسپتال روڈ پر ہوا کرتاتھا عین ممکن ہے کہ میو ہسپتال کی موجودہ عمارت اسکے کھنڈروں پر تعمیر کی گئی ہو‘ میں اس نتیجے پر پہنچا کہ کوئی عالیشان چوبارہ ایک زمانے میں انہی علاقوں میں تعمیر ہوا ہوگا لیکن آج اسکا کوئی نام و نشان نہیں ملتا اور تب پچھلے برس خواجہ تنویر اور ڈاکٹر نسیم اور اب تک ایک گمشدہ دوست کی رہنمائی میں چھجو کے چوبارے کے کچھ آثار تلاش کرنے میں کامیاب ہوگئے‘ صبح سویرے دھندلے سویرے یہ فرید احمد تھا جو اپنی ’ڈڈی گڈی‘ پر سوار مجھے ان سردیوں کی پہلی لاہور یاترا کیلئے میرے گھر پہنچ گیا‘ فرید احمد پچھلے کچھ عرصے سے مجھ پر ’مامور‘ ہے 1969ء میں یورپ سے واپسی پر استنبول میں ترک کسٹم نے ان تحائف کی ایک گٹھڑی باندھی جو میں اپنے بہن بھائیوں کیلئے لایا تھا ’مامور‘ ہمہ وقت مجھ پر کڑی نظر رکھتا تھا جہاں میں جاتا تھا وہیں چلاآتا تھا‘ فرید احمد بھی ایک ایسا ہی مامور ہے جو میرا خیال رکھتا ہے جہاں جاتا ہوں چلا آتا ہے اورباقاعدگی سے صبح ساڑھے چھ بجے ماڈل ٹاؤن پارک کے داخلے پر میرا انتظار کرتا ہے لاہور میں یاتریوں کی گینگ کے دیگر ممبر اپنی اپنی سواریوں پر میوہسپتال کی پارکنگ لاٹ میں پہنچ رہے تھے راستے میں ہم ریگل چوک سے مڑ کرہال روڈ پر رکے‘ میں نے نظر اٹھا کر اس قدیم عمارت کو دیکھا جسکے بالائی فلیٹ نمبر 17 میں میرا بچپن‘ جوانی اور شادی کے پہلے بارہ برس گزرے تھے اور میری آنکھیں بھرآئیں کہ میں ان چار کھڑکیوں کو شاید بیس برس بعد دیکھ رہا تھا جو ہال روڈپر کھلتی تھیں اور پھر کسی نے اس تاریخی عمارت پر قیامت ڈھادی اسکے اندرونی فلیٹ مسمار کرکے ایک ہولناک پلازہ تعمیر کردیا جہاں مولانا عبدالماجد دریاآبادی رہتے تھے جنک‘ مولانا محمد حسین آزاد کے پوتے محمد باقر‘ معراج خالد‘ عائشہ جلال‘ شاہد جلال‘ خورشید شاہد‘ سلمان شاہد‘ سینیٹر پراچہ‘ ڈاکٹر محمود بھٹی کے علاوہ سعادت حسن منٹو رہا کرتے تھے ان کی بیٹیاں اور آپا صفیہ کا گھر تھا‘ اب وہاں پکوڑے‘ مچھلی اور کباب فروخت ہوتے ہیں۔“ اس تحریر کا حاصل مطالعہ پرانی یادوں کو محفوظ کرنے کی روش کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے، جن اقوام نے اپنے ماضی کو یاد رکھا ہے گویا انہوں نے حال اور مستقبل پر حکمرانی کا راستہ تلاش کرلیا ہے۔