سوشل میڈیا خوبیوں اور خامیوں کا مرکب ہے اور اگر خامیوں کا جائزہ لیا جائے تو وہ ایک خامی جو اِس کی ہر خوبی پر حاوی دکھائی دیتی ہے‘ یہ ہے کہ اِس میں ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے غیرمستند ماہرین کی آرأ اور تجاویز ملتی ہیں جنہیں یکساں لاعلم صارفین پھیلاتے چلے جاتے ہیں اور یوں مغالطے پر مبنی ایک ایسا نظریہ یا تاثر اُبھر کر سامنے آتا ہے جس سے رہنمائی لینے والے قومی و صوبائی فیصلہ ساز دن کے اختتام پر ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا کا دوسرا روپ وہ دھوکہ دہی ہے جسے کاروباری حکمت عملی کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے اور اِس میں کسی عمومی شے کو خصوصی بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور صارفین کو سرمایہ کاری کی طرف مائل کیا جاتا ہے یا اُکسایا جاتا ہے۔ ایسی ایک کہانی سننے کو ملی ہے جس میں پانچ لاکھ سے زیادہ فالوروز رکھنے والے ایک سوشل میڈیا کاروباری کردار نے ’ہینڈ بیگ‘ کے کاروبار کی خوبیاں بیان کر کے کئی سادہ لوح سوشل میڈیا صارفین کو گھر بیٹھے کاروبار کرنے کی ترغیب دلائی۔ تفصیلات میں جانے سے پہلے قارئین کو یہ بات ذہن نشین رکھ لینی چاہئے کہ وہ گھر بیٹھے کوئی بھی منافع بخش کاروبار نہیں کر سکتے اور اگر کہیں سے اُنہیں منافع مل بھی رہا ہے تو وہ زیادہ سرمایہ کاری کی لالچ و ترغیب کے لئے ہوتا ہے اور بہت جلد اُن پر حقیقت بجلی بن کر گرے گی۔ سوشل میڈیا پر کاروبار کرنے والے زیادہ تر بینکوں کے ذریعے لین دین نہیں کرتے کیونکہ اِس طرح اُنہیں دی جانے والی رقم مالیاتی نظم و ضبط میں آ جاتی ہے۔ رواں برس (دو ہزار بائیس) کے اوائل میں آن لائن ایپس اور کرپٹو کرنسی ایکسچینجز متعارف ہوئے اور پاکستان میں اِن کی خوب پذیرائی بھی ہوئی جس کی وجہ سے کئی پاکستانی ’پرفریب سرمایہ کاری‘ کی صورت اربوں روپے مالیت کے دھوکے کا شکار ہوئے لیکن چونکہ سب کچھ غیرقانونی تھا اِس لئے دھوکے کی اطلاع قانون نافذ کرنے والے اداروں یا سائبر کرائمز کے خصوصی شعبے کو نہیں دی گئی اور ایسا کرنے کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ سب سے پہلے اُنہیں یہ ثابت کرنا پڑتا کہ جس قدر رقم کے فراڈ کا وہ ذکر کر رہے ہیں اُس قدر رقم کے وہ مالک تھے اور اگر مالک تھے تو یہ رقم اُن کے پاس کہاں سے آئی اور اگر رقم موجود تھی تو اُس پر انکم یا ویلتھ یا ودہولڈنگ ٹیکسیز کیوں نہیں دیئے گئے اور یہ رقم نقدی کی صورت کیوں رکھی گئی وغیرہ وغیرہ۔ سوشل میڈیا کی پرفریب دنیا سے متعلق دھوکہ دہی کی شکایات کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ دھوکہ دینے والوں نے ایک جیسا طریقہ کار اختیار کیا اور اُنہیں پاکستان میں آن لائن رقم وصولی کے نظام میں موجود خامیوں کو بخوبی علم ہے۔ ایسا صرف وہی کر سکتا ہے جو ’سائبر کرائمز‘ کی تفتیش کے عوامل سے بھی بخوبی آگاہ ہو۔ یہ پوری صورتحال انتہائی تشویشناک ہے کہ پاکستان میں سائبر کرائمز کا قلع قمع کرنے والوں کی ایک تعداد ایسی بھی ہے جو مالیاتی جرائم میں معاونت یا سہولت کاری کا کردار اَدا کر رہی ہے چونکہ پاکستان میں ٹیکس ادائیگی کا کلچر نہیں اور سرمایہ جادو کی طرح ہوتا ہے جو سر چڑھ کر بولتا ہے تو اِس لئے آن لائن سرمایہ کاری کے دام میں ایک خاص طبقے کو پھنسانا زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔مادیت پرستی حاوی ہے۔ لوگ راتوں رات سرمایہ دار بننا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں مالیاتی عدم مساوات ڈھکی چھپی نہیں اور ایسی صورتحال میں آن لائن معلومات کو لاپرواہی سے دینا ’دھوکہ دہی‘ کے امکان کو بڑھا دیتا ہے لیکن سوشل میڈیا کی تاریک دنیا میں چند اُمید کی کرنیں بھی ہیں جیسا کہ ’سرٹیفائیڈ فنانشل پلانر بورڈ آف سٹینڈرڈز‘ کے ایک حالیہ جائزے (سروے) سے معلوم ہوا ہے کہ پاکستان میں 77فیصد مالیاتی منصوبہ سازی مردوں کے پاس ہے جن کی عمریں چالیس سال یا اِس سے زیادہ کی ہے جبکہ سوشل میڈیا قابل اعتماد تخلیق کاروں کی صنف اور عمر کے اِس فرق کو مٹا دیتا ہے اور سوشل میڈیا کے ذریعے خواتین کے لئے کاروبار کرنے کے لئے یکساں مواقع موجود ہیں‘ جن سے استفادہ کرنے کے لئے اُنہیں تربیت و رہنمائی کی ضرورت ہے تاکہ دھوکہ دہی کا شکار نہ ہوں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے رہنمائی حاصل کرنا اُتنا ہی خطرناک ہے جس قدر اِس کی وساطت سے سرمایہ کاری کرنا نقصان کا باعث ہو سکتی ہے۔ پرفریب سہی لیکن سوشل میڈیا مالیاتی ترقی کے لئے طاقتور آلہ (وسیلہ) ہے اور اگر اِس کا صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے تو کامیابی یقینی ملتی ہے اور ایسی ہی کئی کہانیاں موجود ہیں‘ جن میں خوش قسمتی سرمایہ کاری کے شانہ بشانہ رہی۔