کچھ روز قبل سے ٹھنڈی ہواؤں کا راج ہے گاہے ہوا کے جھونکے تیز تر ہو جاتے ہیں۔درختوں کے پتے تو پہلے ہی سے مرجھا گئے تھے۔ مگر اب کے پتے زمین بوس ہو رہے ہیں۔ان پر چلتے ہوئے پتوں کی پازیب بجنے لگی ہے۔ایسا ہی ہوتا ہے ہر سال ہمارے ہاں ستمبرسے لے کر نومبر کے آخر تک خزاں کی رُت اپنے حصے کا کردار ادا کرتی ہے۔پھر ا س پت جھڑ کے بعد ایک ایک کرکے درختوں کی تمام شاخیں خالی ہو جاتی ہیں۔ کیونکہ یہاں نئے پتوں نے جگہ گھیرنا ہوتی ہے۔اگر پھول خودگریں مگر ان دنوں ہوا‘پتوں کو گرانا شروع کردیتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں بنیادی طور پر چار موسم ہیں۔ جن کو گرمی سردی خزاں بہار کہا جاتا ہے۔مگر یہ درست نہیں ہے۔صرف دو موسم ہیں۔گرمی اور سردی۔ جب سردی انتہائی بڑھ جاتی ہے تو درختوں کے پتوں کی برداشت سے باہر ہوتا ہے کہ وہ شاخوں پر جھولے لیتے رہیں۔موسم کی یخی کی وجہ سے یہ گرنے لگتے ہیں۔پھر اس کے بعد مارچ میں موسمِ بہار نے آنا ہوتاہے۔یہی اس زمین کا مزاج ہے کہ سردی گرمی کا کھیل یا یوں کہیے کہ بہارو خزاں کا دور دورہ رہتا ہے۔وقت تو اپنے مخصوص دنوں کے بعد اپنے اندر کچھ تبدیلی لے آتے ہیں۔ وقت ہمارا اپنا ایجاد کردہ نہیں یہ سب قدرت کی طرف سے ہے۔پھر یہی قانونِ قدرت ہے کہ صبح ہوتی ہے اور مستقل نہیں رہتی شام تک اندھیرا چھا جاتا ہے۔پھررات جتنی گہری ہوتی جاتی ہے اتنا ہی اندھیرا بھی بڑھنا شروع کردیتا ہے۔پھر جتنا جتنا اندھیرا بڑھتاجاتا ہے یہ بعض لوگوں کے ہاں مایوسی ہو گی۔مگر اندھیرے کے بڑھنے کا دو سرا مطلب یہ کہ اندھیارے جتنے بڑھیں گے اتنا ہی صبح کے قریب تر ہونے کی یقین دہانی دل میں جنم لیتی ہے۔احمد ندیم قاسمی نے کہا ”رات جب شدتِ ظلمت سے جل اٹھتی ہے ندیم۔لوگ اس وقفہئ ماتم کو سحر کہتے ہیں“۔مگر کچھ پھول خزاں کے موسم میں کھلے رہتے ہیں خزاں کے اپنے مختلف شوخ رنگوں کے پھول ہوتے ہیں۔پھر کچھ درخت باوجود خزاں کے بھی سبِز ہی رہتے ہیں۔یہ بھی تو قدرت کی مہارت کی رنگا رنگی ہے کہ کبھی بارش ہورہی ہوتی ہے تو عین اسی وقت سورج بھی چمک رہا ہوتا ہے ویسے ہی تو ہلال رفیق نے نہیں کہہ دیا ”دھوپ کے موسم میں بھی کچھ بارشیں پیہم رہیں۔یہ میری آنکھیں کہ وصلِ یار میں بھی نم رہیں“۔ناصر کاظمی نے کہا ”نہ سمجھو تم اسے شورِ بہاراں۔ خزاں پتوں میں چھپ کے رو رہی ہے“یہی قدرت کا نظام ہے جس کی بہار ہمیشہ سے ہے او رہمیشہ رہے گی۔پت جھڑاور فصلِ گل کو زوال ہے مگر بہار و خزاں کی تبدیلی مستقل ہے۔ہمار ے ہاں تو خزاں پژ مردگی کا اشارہ ہے اور بیزاری کی سی کیفیت رکھتی ہے۔کیونکہ کچھ تو ہمارے شاعروں نے بہار کو اتنا پسند کیا اور خزاں کو اکھڑے ہوئے لہجے سے بیان کیا کہ ہم کو نا حق بھی خزاں سے چڑ سی ہوگئی ہے۔”خزاں رکھے گی درختوں کو بے ثمر کب تک۔گزر ہی جائے گی یہ رُت بھی حوصلہ رکھنا“۔مگر باہر کے ملکوں میں خزاں کا اپنا موسم قابلِ تعریف اور اپنی دیدہ زیبی کے لحاظ سے بہت مشہور ہے۔ وہاں تو خزاں کے پھولوں سے بہت دل بستگی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔پتے گرے ہوتے ہیں اور خلقِ عام ان پرگزرتی ہے ان کے پاؤں تلے پتو ں کی پازیب بجتی ہے۔دائیں ہاتھ کی رو میں سبز درخت موجودہوتے ہیں اور سڑک کے بائیں کنارے کے درختوں کی شاخیں پتو ں سے خالی ہوتی ہیں۔ان نظاروں کو وہ اِن کیمرہ قید کرلیتے ہیں انجوائے کرتے ہیں۔ناصر کاظمی کا مصرع ہے ”جب پتوں کی پازیب بجی تم یاد آئے“۔موسم تو موسم ہیں اور آتے جاتے رہتے ہیں۔انسان بھی اسی طرح درختوں کے پتوں کی طرح ہیں۔جب شاخ سے پتے گرتے ہیں تو ان کی جگہ نئے شاداب پتے آن موجود ہوتے ہیں۔”زرد پتوں کی طرح لوگ اڑے جاتے ہیں“۔پیارے روٹھ کر دوسری دنیا سدھار جاتے ہیں۔پھر وقت کے گزرنے کے ساتھ خزاں کا وہ غم دھیما پڑجاتا ہے۔پھر ایک وقت میں وہ جگہ جو خالی ہوئی اگرچہ بھری نہیں جاسکتی مگر دھیرج سے اور طبیعت کے تحمل سے قرار آہی جاتا ہے۔کیونکہ یہی تو دنیا کی شادابی اور آباد رہنے کا اصول ہے۔اسی لئے تو بہار و خزاں کو کم نگاہوں کا وہم قرار دیا گیاہے۔