ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) سے متعلق خبریں زیادہ اچھی (قابل ذکر) نہیں ہیں اور یہ سلسلہ اُس وقت تک جاری رہے گا جب تک ’ایچ اِی سی‘ اپنے مالی و انتظامی فیصلوں میں خودمختار نہیں ہو جاتی۔ پاکستان میں ایسے حکومتی ادارے موجود ہیں جنہیں مالی و انتظامی خودمختاری دی گئی ہے لیکن تعلیم کا شعبہ ان میں شامل نہیں ہے جبکہ قومی ترقی اور بہتر مستقبل اُس وقت تک ممکن ہی نہیں جب تک اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں سوچ بچار اور تحقیق کا عمل عروج (بلندی) پر نہ ہو۔ حالیہ پیشرفت میں ’ہائر ایجوکیشن کمیشن‘ کے سربراہ (چیئرمین) کی مدت ملازمت کو کم کرتے ہوئے 2 سال کر دیا گیا ہے جبکہ ضرورت اِس مدت ملازمت میں اضافے کی ہے تاکہ کوئی شخص اپنے لگائے ہوئے درخت کا پھل تقسیم ہوتے دیکھ سکے اور اُس کے سائے میں بیٹھ کر اپنی تھکاوٹ کم کر سکے۔ نئے حکومتی فیصلے سے ’ایچ اِی سی‘ چیئرمین کی مدت ملازمت اور اختیارات کم لیکن ایگزیکٹو ڈائریکٹر کو غیر معمولی اختیارات دے دیئے گئے جو ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ ہوتا ہے اور یہ ضروری بھی نہیں ہوتا کہ اُس کا تعلق ماضی میں اعلیٰ تعلیم سے رہا ہو۔ موجودہ حکومت اب ”ایچ ای سی آرڈیننس 2002ء“ میں ترامیم چاہتی ہے اور اِس متعلق جس قدر بھی تفصیلات سامنے آئی ہیں اُن پر اعلیٰ تعلیمی اداروں کے سربراہوں کی اکثریت متفق نہیں۔ نجی اور سرکاری شعبے کی یونیورسٹیوں اور ڈگری دینے والے اداروں کو اِن پر یکساں تحفظات ہیں۔ سب یہی چاہتے ہیں کہ ’ایچ ای سی‘ کو خودمختاری دی جائے۔ بارہ دسمبر کے روز ایچ ای سی سیکریٹریٹ میں ہونے والے اجلاس میں وائس چانسلرز کی اکثریت نے مجوزہ ترامیم کے خلاف تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ ایچ ای سی کے اصل آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ کمیشن وزارت تعلیم یا وزیر اعظم کے دفتر کے کنٹرول کی بجائے ایک خود مختار ادارہ رہے گا۔ اب وزارت تعلیم جس مجوزہ ترمیم کی وکالت کر رہی ہے وہ ایچ ای سی کے کنٹرولنگ اتھارٹی کو وزیر اعظم کے دفتر میں تفویض کرنا چاہتی ہے۔ ایک اور ترمیم میں تجویز دی گئی ہے کہ چیئرمین ایچ ای سی کے لئے وفاقی وزیر کا درجہ ختم کیا جائے۔ کاغذ پر ایچ ای سی کو وزارت کی پیشگی منظوری سے ایچ ای سی آرڈیننس کی تفصیلات پر عملدرآمد کے لئے قواعد بنانے کی اجازت ہوگی۔ یہ سب ترامیم اس بات کی نشاندہی کر رہی ہیں کہ ایچ ای سی کو وزارت سے ہدایات حاصل کرنے اور اپنی سالانہ کارکردگی رپورٹ متعلقہ ڈویژن کو پیش کرنے کی ضرورت ہوگی۔ ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن وزارت سے ہدایات حاصل کرنے سے ایچ ای سی کے فیصلوں میں حاصل خود مختاری باقی نہیں رہے گی جس کا براہ راست تعلق تعلیمی اداروں کے نظم و ضبط اور تعلیم سے متعلق فیصلوں سے ہے۔ تمام اختیارات اپنے ہاتھوں میں مرکوز کرنے کی بجائے حکومت کو اٹھارہوں آئینی ترمیم پر عمل درآمد کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جس میں ہر سطح پر تعلیم کی صوبوں کو منتقلی کا تعین (ذکر) کیا گیا ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے معاملے میں صوبائی ایچ ای سیز کو مضبوط کیا جائے اور اگلے این ایف سی ایوارڈ کے ساتھ صوبائی ایچ ای سیز کو مزید مالی اعانت فراہم کی جائیں۔ وفاقی ایچ ای سی کو صرف ڈگریاں دینے والے اداروں پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے جو وفاقی حکومت کے چارٹرز کے براہ راست دائرہ کار میں آتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق حکومت صوبوں کی نمائندگی ختم کرکے خود کمیشن کی تشکیل میں کمی کا ارادہ بھی رکھتی ہے۔ اگر ایچ ای سی خود کو وفاقی اداروں تک محدود رکھتا ہے اور صوبائی ایچ ای سیز کو مناسب طریقے سے کام کرنے کی اجازت دیتا ہے تو اس سے بہتر کوئی دوسرا حل اور کوئی دوسری بہتر صورت نہیں ہو گی۔