پاکستان اور افغانستان ڈھائی ہزار کلومیڑ سے زیادہ مشترکہ سرحد کے علاوہ چونکہ مشترکہ عقیدے، تاریخ اور زبان و ثقافت اور دوستی کے اٹوٹ رشتوں میں جڑے ہوئے ہیں اس لئے ان دونوں برادر پڑوسی ممالک کی ہوائیں بھی ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتی ہیں یہ شاید ان دونوں پڑوسی ممالک کی جغرافیائی اور روحانی وحدت کا نتیجہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے حالات سے لاتعلق نہیں رہ سکتے‘ ہمیں یہ تمہیدجہاں پاک افغان بارڈر پر گزشتہ چند دنوں سے پیدا ہونیوالی کشیدگی کے تناظر میں باندھنی پڑی ہے وہاں خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں گذشتہ کچھ عرصے سے بدامنی کے پیش آنیوالے واقعات جن میں سکیورٹی فورسزکے علاوہ پولیس اور دیگر متعلقہ ایجنسیوں کے اہلکار وں پر ہونیوالے قاتلانہ حملوں میں بے تحاشہ اضافہ ہو اہے کے تانے بانے بھی سرحد پار مقیم ریاست دشمن عناصر سے جوڑے جارہے ہیں۔بدامنی کے واقعات میں اس اضا فے کو اگر افغانستان میں امن وامان کی صورتحال کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس سے پاکستان کی تشویش میں ہونے والے اضافے کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے اسی اثناء خیبر پختون خوامیں امن و سکیورٹی کو درپیش چیلنجز کے موضوع پر منعقدہ ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ایڈیشنل آئی جی پولیس محمد علی بابا خیل کا کہنا ہے کہ افغانستان طالبان اور کالعدم ٹی ٹی پی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں ٹی ٹی پی اپنا موازنہ افغان طالبان سے کرتی ہے جو درست نہیں ہے کیونکہ افغان طالبان غیر ملکی قابض افواج کے خلاف لڑ رہے تھے جبکہ پاکستان میں ایک منتخب جمہوری اور مقامی حکومت ہے انکا کہنا تھا کہ امریکہ افغانستان میں سات ارب ڈالر کا جدید جنگی سازو سامان چھوڑ کر گیا ہے جو اب پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں استعمال ہو رہا ہے افغانستان میں امریکی افواج کی موجودگی نیز پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ہونیوالے آئے روز کے ڈرون حملوں اور خاص کر افغانستان میں بر سر اقتدار پاکستان مخالف سیاسی عناصر کی موجودگی میں تو پاکستان میں بدامنی اور دہشت گردی کے واقعات کی سمجھ آتی تھی لیکن اب جب سے افغانستان میں طالبان بر سر اقتدار ہیں اور وہ بغیر لڑے اور کسی بڑ ی خون ریزی کے بغیر افغانستان میں بر سر اقتدار آئے ہیں تب سے تو بظاہر افغانستان میں امن اور سکون ہے لیکن جو ں جوں پاک افغان طالبان کے تعلقات میں سرد مہری دیکھنے کو مل رہی ہے اسکا اثر پاک افغان دوستی پر بھی پڑرہا ہے‘طالبان کے بر سر اقتدار آنے کے بعد پاکستان نے سکھ کا سانس لیاتھا اور عام تاثر یہ تھا کہ اس تبدیلی سے افغانستان کی جانب سے پاکستان میں مداخلت کا مسئلہ ترجیحی بنیادوں پر حل ہو جائیگا لیکن سوا سال ہونے کے باوجو د طالبان حکومت عالمی برادری کو یہ باور کرانے میں ناکام نظر آتی ہے کہ انکی سر زمین غیر ممالک بالخصوص پڑوسیوں کیخلاف استعمال نہیں ہوگی دراصل افغانستان میں بر سر اقتدار طالبان حکومت کی جانب سے پاکستان کے ساتھ اگر ایک جانب پاک افغان بارڈر پر کچھ مشکلات درپیش ہیں جن کا اظہار طورخم، کرم اور چمن بارڈر پر مختلف واقعات کی صورت میں ہوچکا ہے جس میں افغان فورسز کی جانب سے ہونیوالی فائرنگ کے نتیجے میں جہاں پاکستان کی سکیورٹی فورسزاور سول آبادی کو جانی نقصانات اٹھانا پڑے ہیں وہاں جب سے افغانستان میں طالبان بر سر اقتدار آئے ہیں تب سے خیبر پختون خوا اور افغان بارڈر پر واقع ضم شدہ قبائلی اضلاع میں بھی امن و امان کی صورتحال مخدوش ہوچکی ہے‘یہا ں یہ سوال اہمیت کا حامل ہے کہ افغان طالبان جو اب تک ٹی ٹی پی کیلئے نہ صرف نرم گوشہ رکھتے تھے بلکہ غیر ملکی افواج کیخلاف لڑائی میں ایک دوسرے کے دست وبازو بھی رہے ہیں وہ اب کیونکر اور کیسے انہیں پاکستان کیخلاف انکے معاندانہ رویئے سے باز رکھ سکیں گے یہ صورتحال اس وقت اور بھی سنگین رخ اختیار کر گئی ہے جب پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان ہونیوالے مذاکرات اور سیز فائر کے خاتمے کا اعلان کر دیا گیا ہے‘ اگر افغان طالبان پاکستان کے امن وامان کے مسائل کا ازالہ نہیں کرتے تو اس سے پاکستان کی مشکلات اور تشویش میں اضافہ ہونا ایک فطرتی عمل قرار پائے گا۔