وہاں توانواع و اقسام کھانے ہوتے ہیں جو فضول خرچی کی حد سے بڑھے ہوتے ہیں۔ کھانے خوب ضائع ہوتے ہیں‘ نفیس پکوان اور لذتِ زباں کیلئے ایک سے ایک بڑھ کر قاتل ہوتا ہے۔پھر متنوع انتخاب ہو تا ہے کہ کیا کھائیں اور کیا نہ کھائیں مگر کھانے والے تو میز پر چُنے گئے تمام پکوانوں کی لذت سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں‘دال ساگ تو عاجزی کے الفاظ ہوتے ہیں مگر بعض اوقات دال ساگ کے نام پربھی بیش قیمت کھانے کھلانے کا رواج ہے یہ جو کہتے ہیں نا کہ دعوتِ شیراز ہوگی آپ تشریف لائیں اس پر بہت لوگ الٹادھوکا ہی کھا جاتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ بہت پُر تکلف کھانا ہوگا مگر دعوتِ شیزاز کو جو سمجھتا ہو وہ اسے عاجزی کے الفاظ سمجھے گا کیونکہ شیخ سعدی جو شیراز کے رہنے والے تھے کسی دوسرے شہر میں مہمان بن کر کسی کے گھرمیں پہنچے وہاں شیخ سعدی کے لئے دستر خوان پر دنیا کی ہر دستیاب نعمت رکھی گئی شیخ سعدی نے ا س سجے سنورے کھانے کو دیکھا تو انکے دل سے ہوک اٹھی‘اس پرمیزبان بہت پریشان ہوا‘ سوچ میں پڑ گیا کہ میں نے اپنے تئیں دسترخوان پر کھانوں کی بھرمار کر رکھی ہے‘جانے کس چیزکمی باقی رہ گئی ہے اس نے دوسرے دن اسی دستر خوان کو اور زیادہ آراستہ کر دیا۔مگر جب سعدی کھانے لگے تو دوبارہ صدا دی ہائے دعوتِ شیراز‘میزبان پھرحیرت میں پڑگیا۔اس نے باتوں باتوں میں شیخ سعدی سے پوچھ ہی لیا‘ جناب میں نے تو دسترخوان پر ہر نعمت رکھی ہے وہ کون سی چیز ہے کہ جسکی دسترخوان پر کمی ہے جو شیراز میں ہے اور یہاں نہیں ہے‘آخرسعدی بول اٹھے‘ میرے بھائی شیرازمیں اس قسم کی پُر تکلف دعوتیں نہیں ہوتیں‘وہاں دال ساگ چلتا ہے‘عاجزی والاسادہ کھانااس لئے میں آپکپ کے پُرتکلف کھانے کو دیکھ کر اپنے شہر کے سادہ دستر خوان کویاد کرتاہوں ہمارے ہاں کی دعوتوں میں خواہ ولیمہ ہو یا بارات کا کھانا ہو وہاں دال ساگ کہاں ہوتاہے۔وہاں تو لب ودنداں کو لذت پہنچانے کیلئے دنیا کی ہر نعمت رکھی ہوتی ہے خوانچہ میں ساگ توہوتا ہے مگر دال کانام ونشان تک موجودنہیں ہوتاہاں بعض سادہ شادیوں میں اگر تین چھتی روٹی ہو تو وہاں دال چنااور گوشت کا پیالہ چاولوں کی غوری پر رکھ کر مہمانوں کو پیش کرتے ہیں وہاں دال کاپیالہ غوری میں انڈیل دیتے ہیں جسکا اپنا الگ سا مزا ہوتا ہے‘ساگ کی بات چلی توخوانچہ میں ساگ کا پیالہ بھی رکھا جاتا ہے مگر قربان جاؤں دیگی کے پیارے ہاتھوں کے وہ جس مہارت سے چھوٹی پالک کا ساگ بمعہ گوشت پکاتاہے اور جدید طریقے پراس میں پنیر کے ٹکرے بھی ڈال دیتا ہے اس کی اس ادا پر تو مر مٹنے کوجی کرتاہے‘ساگ ہو جس قسم کا بھی ہو اپنے کو تو پسند ہے پھر ساگ کے ساتھ جوار کی روٹی ہو توکیا کہنے یہ توہمارے نزدیک بہت پُر تعیش کھاناہے‘خوانچہ میں تو مختلف ڈشوں کا بادشاہ چاول ہی ہوتے ہیں خواہ جونسی قسم کے تیارکردہ ہوں مگراکثر مہمان دوسرا نمبرساگ کودیتے ہیں پھرساگ بھی گھرمیں پکاہوا دال ساگ تونہیں ہوتا اس میں تو گوشت اور پھرپنیرکے ٹکرے بھی ڈالے گئے ہوتے ہیں پھر گھی کی بہتات کے ساتھ سبزرنگ اپنی جگہ معدہ کودعوت دیتا ہے کہ جلدی کرو اس پرکوئی اورہاتھ صاف کر لے گاجلدی سے ساگ کو اپنی گرفت میں کر لو جن کو ساگ کے ساتھ رغبت ہے وہ ساگ پر ہاتھ ڈالتے ہیں اور جو گردوں کے بیمار ہوتے ہیں وہ تواکثر پرہیز کے نام پرپہلے کوئی اور ڈش اٹھا کر ساگ کوتیاگ دیتے ہیں مگر بعض تو پرہیز کسے کہتے ہیں‘کسی نے چاول نہیں کھانا ہوتے تو اس موقع پرکہ سب کھا رہے ہوں وہ بھوکا تو نہیں رہ سکتاپھر کسی نے فرنی اور کھیراور جیلی سے منہ کامزانہ لینا ہو کہ شوگرکے ہائی ہوجانے کاڈر ہو تووہ اس ڈر کو دفع دور کردیتا ہے اوربھر پورقوت سے اس آخری آئٹم پرحملہ آور ہوجاتاہے پھر اس کو اس موقع پرجب اپنی جان کی پرواجو نہیں ہوتی تو پھرکوئی اسے دیکھ رہاہو وہ اسکی طرف کب دھیان دیتا ہے‘ جو ہوگا دیکھا جائے گا یہ ڈاکٹر حضرات کس لئے ہیں چلیں جائیں گے معالج کو وزٹ کر لیں گے‘اب بلڈ پریشر کیا ہوتا ہے سب کو سب معلوم ہے مگر جب یہ لوگ میز پربارات کے کھانے میں خوانچہ کو اپنی طرف کھینچتے ہیں تو ان کی یاداشت معطل ہو جاتی ہے وہ جب تک کہ پلاؤ اور زردہ پرمکمل ہاتھ صاف نہ کر لیں ان کے من کوچین نہیں آتا اور دل کوتسکین نہیں ملتی وہ بڑی سہولت اور آرام کے ساتھ اپنے آپ کو تباہ کررہے ہوتے ہیں۔