پاکستان اور بھارت فٹ بال کے عالمی مقابلوں (فیفا ورلڈ کپ) کا حصہ نہیں تھے۔ اگر ایسا ہوتا تو ذرا سوچیں کہ جس اچھے کھیل (جوش و جذبے پر حاوی عداوت) کا اظہار یہ دونوں ممالک کرکٹ کے میدان میں کرتے ہیں وہ فٹ بال کے میدان میں بھی دیکھنے کو ملتا۔ فٹ بال کی وجہ سے تو ممالک میں جنگ تک چِھڑ چکی ہے لہٰذا یہ اچھا ہی ہے جو بھارت اور پاکستان عالمی فٹ بال نہیں کھیلتے ورنہ اس دشمنی میں مزید اضافہ ہوتا! سال 1969ء میں ہونڈوراس اور ایل سیلواڈور کے درمیان ہونے والی مختصر جنگ کی کہانی تو شاید قارئین نے سن رکھی ہو جو فٹ بال میچ میں اختلافات کے سبب چِھڑی تھی۔ اِن دونوں ممالک کے بیچ جنگ 100گھنٹے چلی اور اسے ’فٹبال وار‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات ہوئے جس میں بااثر لاطینی امریکی ممالک کا اہم کردار رہا اور یوں جنگ بندی عمل میں آئی تھی۔ یہ بات بہت کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ ایک وقت ایسا بھی تھا کہ جب فٹ بال کی وجہ سے دو عرب ممالک سعودی عرب اور کویت کے درمیان بھی جنگ کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔ اس حوالے سے انٹرنیٹ پر اتنی معلومات بھی نہیں ملتی لیکن یہ حقیقت ہے کہ فٹ بال میچ کے سبب پیدا ہونے والے اس جھگڑے کی وجہ سے خلیج تعاون تنظیم (جی سی سی) ٹوٹنے سے بال بال بچی تھی جس کے یہ دونوں ممالک رکن تھے۔ بعدازاں خلیجی ممالک کی اس تنظیم کے جنرل سیکرٹری عبداللہ بشارہ نے مختلف خلیجی ممالک کا دورہ کیا تاکہ دونوں ممالک کے درمیان امن بحال کیا جاسکے۔ اِن دونوں ممالک کے تعلقات اس لئے بگڑے تھے کیونکہ ’جی سی سی‘ کی جانب سے منعقد ہونے والے فٹ بال مقابلوں میں کویتی وفد نے میزبان سعودی عرب کا مذاق اڑایا۔ یہ مذاق کچھ یوں اڑایا گیا کہ کویتی وفد سفید گھوڑوں کی تصویر دکھاتا رہا جو حجاز پر ترک قبضے کی جانب اشارہ تھا‘ اُس وقت موجودہ سعودی عرب کا ایک حصہ حجاز کہلاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ کویت اس وقت اپنے پڑوسی ممالک سے پہلے ہی تیل دریافت کرچکا تھا اس لئے وہ معاشی طور پر مستحکم تھا جبکہ 1979ء کے دوران ایران میں رضا شاہ کے زوال کے بعد سعودی عرب کو ترقی کی سیڑھیاں چڑھنے کا موقع ملا۔ ماضی میں یہ قیاس آرائیاں بھی کی جا رہی تھیں کہ کویت پر صدام حسین کے حملے نے سعودی عرب کو صرف اس وجہ سے پریشان کیا کیونکہ اسے خطرہ تھا کہ کہیں صدام حسین سعودی عرب پر بھی حملہ نہ کردے۔فٹ بال کی وجہ سے جن ممالک کے درمیان ایک اور ممکنہ تنازع دیکھنے میں آ سکتا ہے وہ سعودی عرب اور مراکش ہیں۔ اس سے قبل سعودی عرب 2026ء کے عالمی کپ میزبانی کے لئے مراکش کی بولی کی مخالفت کرچکا ہے۔ قطر کو میزبانی ملنے پر بھی سعودی عرب نالاں تھا لیکن اس نے مراکش کی 2026ء کی میزبانی کی راہ میں سخت رکاوٹیں ڈالیں جس کے نتیجے میں کینیڈا‘ امریکہ اور میکسیکو کو مشترکہ طور پر 2026ء کے عالمی کپ کی میزبانی کا موقع مل گیا جیسے بھارت اور پاکستان اکثر کشمیر کو اپنے نقشے میں شامل کرکے تنازعات کو ہوا دیتے ہیں اسی طرح سعودی عرب نے بھی ایسا ہی کیا۔ سعودی عرب نے وسطی صحراوی جمہوریہ کو الگ ریاست کے طور پر دکھایا جبکہ مراکش اس حیثیت کو تسلیم نہیں کرتا۔ ممالک کے درمیان تعلقات میں اس اتار چڑھاؤ کے نتیجے میں ہی مراکش نے سعودی عرب اور یمن جنگ سے دستبرداری کا فیصلہ کیا تھا مراکش نے ترکی میں صحافی جمال خشاقجی کے بے رحمانہ قتل کے بعد سعودی ولی عہد کی حمایت کرنے سے بھی انکار کردیا تھا دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کا آغاز دوہزار اٹھارہ میں ماسکو میں ہوا جہاں 2026ء کے عالمی کپ کی میزبانی کے لئے مراکش نے بولی لگائی تھی اور سعودی عرب نے اس کی مخالفت کی تھی۔