ایک ماہ قبل ’فیفا ورلڈ کپ 2022ء‘ کا آغاز اِس اُمید کے ساتھ ہوا تھا کہ اِس پر ’لیونل میسی‘ چھائے رہیں گے اور درحقیقت ی عالمی مقابلہ ’میسی‘ ہی کے نام اور اُنہی کا ورلڈ کپ کہلائے گا۔ آج (اٹھارہ دسمبر) ’میسی‘ ورلڈ کپ کا آخری عالمی مقابلہ کھیلیں گے اور امکان ہے کہ اِس کے بعد وہ فٹ بال کے عالمی مقابلوں میں بطور کھلاڑی شرکت کرنے کا اعلان کریں گے۔ میسی نے بین الاقوامی فٹ بال 1986ء میں کھیلنا شروع کیا اور اِس کے بعد انہوں نے اپنے ہم وطن کھلاڑی ڈیاگو میراڈونا کی کمی پوری کی جنہوں نے ارجنٹائن کو عالمی مقابلہ (ٹائٹل) جیتنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ فیفا ورلڈ کپ کے حالیہ فائنل مقابلے میں ارجنٹینا اور میسی کے لاکھوں مداحوں نے اُن کا کھیل دیکھا لیکن میسی اور ارجنٹائن دونوں کو فٹبال کے دفاعی چیمپئن فرانس کی شکل میں مشکل چیلنج درپیش رہا۔ میسی اور ارجنٹائن کی ٹیمیں جہاں شان و شوکت کے حصول کے لئے میدان میں اتریں وہیں لی بلیوس ایک ایسی ٹیم کے طور پر میدان میں اترے جو ساٹھ سال میں ورلڈ کپ ٹائٹل کا دفاع کرنے والی پہلی ٹیم تھی اور
عالمی چیمپئن بننے کی صلاحیت حاصل کرنے کے لئے پوری طرح پراعتماد بھی تھی۔ اگر ارجنٹائن کے پاس میسی تھا تو فرانس کے پاس کیلیان ایمباپے تھے اور یوں ایک ہی میدان میں فٹ بال شائقین نے کئی روشن ستارے دیکھے اور کھیل سے محظوظ ہوئے۔ ارجنٹینا اور فرانس کے درمیان ٹائٹل کے تصادم میں ستاروں کا اجتماع رہا تاہم اِس مرتبہ ورلڈ کپ کے 62 مقابلے کافی ہنگامہ خیز اور غیرمتوقع نتائج کا باعث رہے جن میں کئی بڑے اپ سیٹ دیکھنے کو ملے جیسا کہ سعودی عرب کی ارجنٹائن کے خلاف فتح تھی جس نے جنوبی امریکہ کی اِس ٹیم جو کہ 36 میچوں میں ناقابل شکست تھی اور ٹورنامنٹ جیتنے کے لئے قطر پہنچی تھی کی تیاری پر کئی سوالات کھڑے کئے تھے۔ مذکورہ شکست میسی اور ان کے ساتھیوں کے لئے ابتدائی ویک اپ کال کے طور پر آئی‘ جس نے ٹیم کے مینیجر لیونل اسکالونی کو ورلڈ کپ جیتنے کی اُمید زندہ رکھنے پر مجبور کیا اور اس کے بعد ارجنٹینا کافی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ سب سے دلچسپ مقابلہ وہ سیمی فائنل تھا جب ارجنٹائن نے کروشیا کے مقابلے تین صفر سے کامیابی حاصل کی اور فائنل کے لئے اپنا انتخاب کروایا۔
ارجنٹائن فٹ بال کھیلنے والی ہی نہیں بلکہ فٹ بال کے کھیل کو طرز زندگی کے طور پر اختیار کرنے والی چند اقوام میں سے ایک ہے۔ جن کے ہاں ہر دور میں ایک سٹار کھلاڑی اِن کی پہچان رہتا ہے اور پاکستان میں بھی ’میسی‘ کے پرستاروں کی کوئی کمی نہیں۔ فرانس کے تجربہ کار کھلاڑی ایمباپے‘ انٹونی گریزمین اور اولیور گیروڈ کسی طرح بھی ارجنٹائن سے کم نہیں اور اُنہوں نے ثابت کیا کہ وہ کھیل پر مہارت رکھتے ہیں۔ اِن کے علاوہ ٹیم کے منیجر ڈیڈیئر ڈیسچیمپس جن کے پاس 1998ء میں ایک کھلاڑی کی حیثیت سے اور 2018ء میں
ایک کوچ کی حیثیت سے ورلڈ کپ جیتنے کا تجربہ تھا ثابت کر رہے تھے کہ اُن کی وضع کردہ کھیل کی حکمت عملیاں کسی بھی طرح معمولی نہیں۔ میسی جو کہ 35 سال کی عمر میں اپنا آخری ورلڈ کپ کھیلے آٹھ سال قبل برازیل میں 2014ء کے ورلڈ کپ کے فائنل میں خاطرخواہ کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکے تھے لیکن میسی پر توقعات مرکوز کرنے والوں کو دیگر کھلاڑیوں کی کارکردگی کو بھی سراہنا چاہئے کیونکہ کسی بھی کھیل کا نتیجہ ’ٹیم ورک‘ کا نچوڑ ہوتا ہے اور اَرجنٹینا ہو یا فرانس ورلڈ کپ کے مرحلے تک پہنچنے والی تمام ٹیمیں مبارک باد کی مستحق ہیں جنہوں نے فٹ بال کے کھیل کو سنجیدگی سے لیا اور ہر مرحلے پر اچھے کھیل کا مظاہرہ کر کے شائقین کے دل جیتے یقینا فٹ بال کے پاکستانی فیصلہ ساز بھی آئندہ ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کی شمولیت کی کوشش کریں گے جس کے لئے فٹ بال ایسوسی ایشن میں مداخلت اور اجارہ داری کا خاتمہ ضروری ہے۔ پاکستان میں میسی اور ایمباپے جیسے کھلاڑیوں سے بڑھ کر ٹیلنٹ موجود ہے لیکن مقام افسوس ہے کہ یہ فٹ بال ٹیلنٹ نامناسب پالیسیوں کے باعث ضائع ہو رہا ہے۔