تحریک انصاف حکومت نے سال 2020ء کے دوران خیبر پختونخوا میں جاری کردہ ’صحت انصاف کارڈ‘ کا دائرہ کار پنجاب اور اسلام آباد تک بڑھایا جس کے تحت علاج کے لئے اہل افراد کو دس لاکھ روپے تک کا مفت علاج کرانے کی سہولت دی گئی تھی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یکم جنوری 2022ء سے 8 اپریل 2022ء کے درمیان پنجاب بھر کے مختلف ہسپتالوں میں داخل ہونے والے 4 لاکھ 19ہزار 181مریضوں نے ہیلتھ کارڈ استعمال کیا جس پر مجموعی طور پر ساڑھے 8 ارب روپے خرچ ہوئے۔ حکام کی جانب سے اس پروگرام کو سماجی بہبود میں اصلاحات کی جانب سنگ میل قرار دیتے ہوئے اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ ملک بھر کے پسماندہ شہریوں کو بغیر کسی مالی ذمہ داری کے تیز رفتار اور باوقار انداز میں صحت کی دیکھ بھال تک رسائی فراہم کی جائے۔ بنیادی طور پر صحت کارڈ پروگرام کا مقصد غریبوں کو ہیلتھ انشورنس کے ذریعے معیاری طبی سہولیات و خدمات کی فراہمی ہے۔ تاہم تحریک انصاف کی وفاق میں حکومت ختم ہونے کے ساتھ ہی ملک کے کئی نجی ہسپتالوں نے صحت کارڈ کے مریضوں کو سہولیات فراہم کرنا بند کر دیا ہے اور وہ نجی ہسپتال جو صحت کارڈ سے قبل قرض لیکر بمشکل اپنے امور چلا رہے تھے لیکن صحت کارڈ متعارف ہونے کے بعد ماہانہ کروڑوں روپے منافع کرنے لگے تو اُنہوں نے محض اِس اندیشے اور مفروضے کی بنیاد پر عوام سے آنکھیں پھیر لیں کہ شاید نئی حکومت انصاف صحت کارڈ کے واجبات ادا نہیں کرے گی۔ نجی ہسپتالوں نے صحت انصاف پروگرام سے اپنی وابستگی ختم کرنے پر غور کرنے سے متعلق بیانات بھی دیئے جس کی وجہ سے ہزاروں مریضوں کو سرکاری ہسپتالوں کی طرف واپس بھیج دیا گیا ہے۔ اس حقیقت پر جس قدر بھی افسوس کا اظہار کیا جائے کم ہو گا کہ پاکستان میں فلاحی منصوبے بھی سیاست اور مفادات کی نذر ہو جاتے ہیں۔ نجی ہسپتالوں کی انتظامیہ کو اب بہت سے اعتراضات یاد آ گئے ہیں جیسا کہ حکومت کی جانب سے علاج معالجے کی قیمتوں کا تعین کرنے کا طریقہ کار غلط ہے۔ حکومت کی جانب سے ادائیگیوں میں تاخیر ہوتی ہے وغیرہ۔ کئی ہسپتالوں نے صحت کارڈ سے جڑی اپنی سہولیات کم کر دی ہیں جیسا کہ سرجری کی خدمات یہ کہتے ہوئے (بہانے سے) فراہم نہیں کی جا رہیں کہ حکومت کے مقرر کردہ ریٹ کم ہیں یعنی اب سے پہلے جو کام ممکن تھا وہ اچانک ناممکن ہو گیا ہے۔ ایسے ہسپتال بھی ہیں جنہوں نے مبینہ طور پر ”بھاری نقصانات“ سے بچنے کے لئے‘ مریضوں کے علاج میں چناؤ اور انتخاب شروع کر رکھا ہے اور اپنی مرضی کے مریضوں کو طبی سہولیات فراہم کرتے ہیں اور ایسے مریضوں کو مسترد کر دیتے ہیں جن کے علاج کی لاگت زیادہ ہو۔ صحت انصاف کارڈ کو ناکام بنانے کے لئے ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت کام ہوا‘ ہمارے سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور صحت کارڈ شروع کرنے کے وقت ایک مطالبہ یہ بھی سامنے آیا تھا کہ سرکاری علاج گاہوں میں سہولیات کے معیار میں بہتری لائی جائے تاکہ مریضوں کو نجی ہسپتالوں کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی بجائے اِن کا علاج سرکاری ہسپتالوں میں کیا جائے۔ اب بھی ضرورت اپنی جگہ قائم ہے کہ طبی خدمات کے لئے نجی ہسپتالوں میں سرمایہ کاری کی بجائے سرکاری ہسپتالوں میں علاج و دیگر سہولیات کو اپ گریڈ کیا جانا چاہئے۔