سردی اور پھر خزاں کا موسم

 چارپائی پر بیٹھے گاؤ تکیہ پر ٹیک لگائے میرے سامنے پتنوس دھرا ہے۔جس میں قہوے کی چینک سے قہوے کی اپنی بو باس بہت خوشنمائی کے ساتھ آرہی ہے۔سردی کی ان ٹھنڈی دوپہروں میں باوجود یہ کہ دھوپ بھی موجود ہے پھر بھی یخی کا ماحول ہے۔جلدی جلدی قہوہ کی سُرکیاں لے کر قہوہ اپنے وجود میں انڈیل رہاہوں کہ پھر ٹھنڈا قہوہ لطفِ زباں کے لئے معیوب ہوا جاتا ہے۔میں اپنے گھر کی چھت پر بیٹھا پانی کی ٹینکی کے پاس ساتھ والے قبرستان سے ابھرے ہوئے درختوں کو تاک رہاہوں۔ گاہے دو درخت تو اس طرح سایہ فگن ہیں لگتا ہے جیسے چھت کی اینٹوں میں کس نے گاڑ دیئے ہوں۔مگر نہیں یہ ساتھ والے گھروں کے صحن سے چپ چاپ ابھرکر ہمارے گھرکی دیواریوں پر جھکتے ہوئے ہمیں سایہ دے رہے ہیں۔اس سورج کی گردش کا دائرہ سر کے اوپر نہیں بلکہ سامنے جنوب کی طرف گول گول گھوم رہا ہے۔پھر بعض گھر بھی ہیں جن کی دیواریں ہمارے گھر کی دیواروں سے قد میں اونچی ہیں۔ چھت کی کھڑکی سے اگر گھر کے باہر نظارہ کریں دو بہت طویل قبرستان ہیں۔جن کے درمیان میں سے سڑک ہو کر گزری ہے۔اس پرٹریفک بھی رواں دواں ہے۔پھر قبرستانوں پر سبزہ اپنی بہار اس طرح دکھلا رہاہے کہ کھیل کا سرسبز میدان بنا ہوا ہے۔یہاں سے جو ہواسبزہ کو چھو کر آتی ہے تو گرمی کاموسم کیوں نہ ہو چھومنتر ہو تا ہے اور ہوا ٹھنڈی ہو جاتی ہے۔اس لئے ماحول کو دلکش اور ٹھنڈا رکھنے کے لئے درختوں کا ہونا ہر چار دیواری ہر علاقہ کے لئے از بس کہ ضروری ہے۔یہ خاصا سرسبز و شاداب علاقہ ہے۔ہمارے علاقے کے بارے میں لندن کے ایک دوست نے وہاں سے وائس کلپ میں کہاتھا کہ یار آپ جس علاقے میں رہتے ہیں وہ تو خاصا سر سبز ہے۔وہ دوست کبھی یہاں آیاہوگا۔ مگر اس کی بات آج چالیس سال کے بعد بھی جوں کی توں ہے اور ویسے کی ویسے ہے۔مجھے ایک دم سے علامہ اقبال کی وہ تصویر یاد آئی۔ وہ تو تھے پنجابی اس لئے لنگ پہنے اپنی چارپائی پر آراستہ تھے نیچے زمین پر کبوتر جو انہوں نے پال رکھے تھے وہ دانہ چگ رہے تھے۔ یہاں ہمارے گھر کی دیواروں پر بھی دوسروں کے کبوتر آکر بیٹھتے ہیں اور کبھی پیاسے ہوں تو اوپرٹینکی بھر جانے پر جو پانی اپنے کناروں سے باہر گرنے لگتا ہے یہ حیوان وہ پانی پینے لگتے ہیں۔ایک طرف خزاں رسیدہ پتوں کا ایک ڈھیر لگا ہے۔کیونکہ اس موسم ِ خزاں میں پتے ایک ایک کر کے اپنے اپنے نمبر سے گر رہے ہیں۔جن کو ہماری گھروالی نے ایک طرف کر کے ڈھیر لگائے جا رہی ہے۔ان زرد اور پھراوپرشاخوں پرکملائے پتوں کو دیکھ کر جانے کیا کیا خیالات ذہن کی ویران گزر گاہوں میں سے ہو کر گزرتے چلے جاتے ہیں۔سوچ رہا ہوں کہ انسانی زندگی بھی اسی ڈھب پر رواں ہے۔میں نے جب ایک پتے کو اٹھا کر غور سے دیکھا تو اس کی رگیں نظر آئیں۔جن میں سے ہو کر اس کو درخت کے تنے سے خوراک ملتی تھی۔اقبال کا شعر ہے ”دیدہ بینا بھی کر خدا سے طلب۔ آنکھ کا نور دل کا نور نہیں“۔ظاہر ہے کہ اگر دل کی آنکھ کھلی ہو تو بندہ دیوار کے پیچھے تو کیا دیکھ سکے گا خو دپھول کی نزاکت اور لالی پھر اس کی خوبصورتی میں اس کے بنانے والے کو کھلی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے۔کیونکہ اس کو تو کوئی دیکھ نہیں سکتا مگر اس کی قدرت کو تو دیکھ سکتا ہے۔میں نے قہوہ کی ایک پیالی چڑھائی تو ٹکوزی میں سے چینک نکال کردوسری پیالی بھر لی۔مگر ان خیالات میں چھیلی ہوئی مونگ پھلی بھول گئی۔جو ایک چھوٹے پیالے میں ننھی نے چھیل کر میرے لئے اس ٹرے میں رکھی ہوئی تھیں۔ننھی قہوہ اچھا بناتی ہے۔اس لئے اس کی موجودگی میں اس کی ماں کو قہوہ بنانے کی اجازت نہیں۔پھر اس نے بھی اجازت نہ ہونے کا شکر کیا ہوگا کہ کم از کم گھر کے ایک کام سے تو جان چھوٹی۔یہ چھٹی کا دن تھا۔مگر دوپہر ایک ولیمہ پر بھی تو جاناتھا۔ ذہن اس کے لئے بھی تیار تھا بلکہ معدہ کو او رہشکت ملتی جب اس مشہور شادی ہال کے کھانو ں کا خیال آتا۔مونگ پھلی کترتا جاتا اور قہوہ کی سرکی لیتا جاتا دھوپ جو درختوں کی شاخوں میں سے چھن کر آ رہی تھی چھپن چھپائی کا کھیل کھیل رہی تھی۔گاہے دھوپ تیز ہو جاتی تو دھلے کپڑوں والی رسی پر جو ایک درخت کی شاخ سے دوسرے درخت کی شاخ پرباندھ رکھی تھی۔وہاں تولیے کو سرکا کر دھوپ کو جیسے ہاتھ کی ہتھیلی سے چھپا لیتا۔مگر جب سورج کی روشنی کا کرارا پن ڈھیلا پڑنے لگتا تو سر کے آگے سے تولیہ دوسری طر ف سِرکا لیتا۔یہ خاص وہ وقت تھا جب پشوریوں کے گھروں میں ناشتے کے دو گھنٹے کے بعد دوپہر کے کھانے سے پہلے لنگری میں ٹماٹر کی چٹنی سبز مرچیں ڈال کر کوٹی جاتیں اور صبح کی باقی ماندہ روٹی کے ساتھ کھائی جاتی ہے۔مگر ہم سورج کی کرنوں کو قہوہ کی پیالی میں پیلی رنگت کے ساتھ نوش کر رہے تھے۔