پاک افغان تعلقات

 پاکستان اور افغانستان کے حالات ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں اس لئے تو پاکستان نے ہمیشہ افغانستان میں امن اومان کے حوالے سے اہم کردار ادا کیا ہے اور اب بھی افغان عوام کی مشکلات میں کمی کیلئے عالمی سطح پر کوششوں میں مصروف ہے تاہم اس کے باوجود افغانستان کی طرف سے ان خیرسگالی اور خیر خواہی کی کوششوں کا مناسب جواب نہیں دیا گیا اور افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف ماضی کی طرح استعمال ہورہی ہے۔ افغان سرزمین اور افغان وسائل کا پاکستان کے خلاف استعمال روکنے بالخصوص سرحدی کشیدگی کم کرنے کے لئے پاکستان کے 16عمائدین پر مشتمل ایک وفد افغانستان روانہ ہوا ہے۔ وفد میں علمائے کرام‘ عمائدین اور تاجر شامل ہیں۔ وفد قندھار کے گورنر یوسف وفا سمیت دیگر افغان حکام سے ملاقاتیں کرے گا تاکہ سرحدی کشیدگی میں کمی لائی جا سکے۔ سانحہ آرمی پبلک سکول (سولہ دسمبر دوہزارچودہ) کے بعد انسداد دہشت گردی کی قومی حکمت عملی بنائی گئی جس پر عمل درآمد سے 2018ء میں امن بحال ہوا اور آخر کار ملک امن اور استحکام کی جھلک دیکھنے کو ملی۔ 2018ء کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی ہونے کے بعد ابھی معمولات زندگی معمول پر آ رہی رہے ہیں جیسا کہ پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی ہو چکی ہے تو ایک مرتبہ امن و امان کی صورتحال کو خراب کرنے کی سازشیں ہونے لگی ہیں۔ پاکستان نے سابق فاٹا سے دہشت گرد تنظیموں کو نکال باہر کیا اور اُنہیں بھاگنے پر مجبور کیا لیکن افغانستان کے بھارت نواز حکمرانوں نے پاکستان میں امن و امان کے دشمنوں کو نہ صرف پناہ دی بلکہ اُنہیں تحفظ بھی فراہم کیا۔ پھر افغانستان میں اقتدار کی تبدیلی کے بعدیہ توقع نہ تھی کہ یہ سلسلہ بدستور جاری رہے گا۔ توجہ طلب ہے کہ افغان طالبان حکومت نہ صرف تحریک طالبان پاکستان کے بارے میں پاکستان کے خدشات دور کرنے میں ناکام رہی ہے بلکہ اس کی سرحدی فورسز پاکستانی شہریوں اور تنصیبات کو نشانہ بنا رہی ہیں!اس سے ایک بار پھر ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان نے واضح طور پر افغان طالبان کو غلط سمجھا یا ان سے غیر حقیقی توقعات وابستہ کیں۔ پاکستان نے سرحد پار سے حملوں پر اب تک جس تحمل (برداشت) کا مظاہرہ کیا ہے اور حالیہ واقعات کو نظر انداز کرنے کا انتخاب کیا ہے حالانکہ تنقید کے بعد اس نے افغان سفارتکار کو سخت احتجاج کرنے کے لئے طلب بھی کیا لیکن پاکستان کی طرف سے ردعمل محتاط رہا ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان افغان طالبان کے ساتھ تعلقات میں کسی قسم کی دراڑ نہیں چاہتا اور نہ ہی جواباً افغان عوام کا جانی نقصان کرنا چاہتا ہے۔ سفارتی کوششوں اور مذاکرات کی مسلسل ناکامیوں کے باوجود فیصلہ سازوں کا خیال ہے کہ پاکستان کو افغان طالبان کے ساتھ رابطے میں رہتے ہوئے سرحد پار سے حملوں اور افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں دہشت گرد کاروائیوں کی منصوبہ بندی‘ تربیت اور وسائل فراہم کرنے والوں سے نمٹنا چاہئے جس کے لئے افغان طالبان تعاون کی یقین دہانی کروا رہے ہیں لیکن خاطرخواہ عملی اقدامات نہیں ہو رہے۔ایک طرف تو پاکستان عالمی برداری پر زور دے رہا ہے کہ وہ طالبان حکومت کو تنہا نہ چھوڑے اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر افغانستان کی مدد کرے تو دوسری طرف افغان طالبان عالمی برداری کے ساتھ کئے گئے وعدوں کی تکمیل میں ناکام نظر آرہے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اگر افغان طالبان چاہتے ہیں کہ ان کی حکومت کو بین الاقوامی برداری تسلیم کرے تو اس کیلئے انہیں اس امر کا ثبوت دینا ہوگا کہ وہ افغان سرزمین کو کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے رہے۔