امریکہ سعودی عرب کو واشنگٹن اور بیجنگ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کے لئے نہیں کہہ رہا ہے البتہ وہ چینی صدر شی جن پنگ کے سعودی عرب کے دورے کو خطے میں اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کے طور پر ضروردیکھ رہا ہے۔واضح رہے کہ یہ تبصرہ چین کے صدر کے حالیہ دورہ سعودی عرب کے بعد وائٹ ہاؤس اور سٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں دی جانے والی دو الگ الگ بریفنگ کے دوران سامنے آیاہے۔وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی کاصحافیوں سے گفتگوکرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ یقینی طور پر کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ صدر شی نے سعودی عرب کادورہ کیاہے بلکہ ہم اس اثر و رسوخ پر نظر رکھے ہوئے ہیں جو چین پوری دنیا میں بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔اسی طرح جب سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان نیڈ پرائس سے اس دورے پر تبصرہ کرنے کو کہا گیا تو ان کاکہنا تھا کہ ہم ممالک سے یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ وہ امریکہ اور چین میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں بلکہ ہمارا مقصد ممالک کو سب سے پرکشش انتخاب دینا اور امریکہ کو اس لحاظ سے سب سے پرکشش انتخاب بنانا ہے۔ مسٹر پرائس نے خاص طور پر مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک کے ساتھ امریکہ کے دفاعی تعلقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی ملک خطے میں امریکہ کا مقابلہ نہیں کر سکتا کیونکہ مشرق وسطیٰ میں اپنی دفاعی صلاحیتوں کو مربوط کرنا امریکہ کے بہت سے شراکت داروں کے لیے بہت اہم ہے تاہم یہ ایک برسرزمین حقیقت ہے کہ امریکی میڈیا نے مسٹر شی کے سعودی عرب میں پرتپاک استقبال کو ریاض کی واشنگٹن پر انحصار کم کرنے کی خواہش سے تعبیرکیاہے۔اس سلسلے میں اپنے ایک تجزیاتی مضمون میں فارن پالیسی میگزین نے سابق سعودی وزیر خارجہ سعود الفیصل کے واشنگٹن پوسٹ کو 2004 میں دیئے گئے اس انٹرویو کا حوالہ دیا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ سعودی عرب امریکہ سے جان نہیں چھڑا رہا بلکہ وہ دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل نے صدر شی کے دورے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ اس دورے نے دنیا کے سب سے بڑے تیل درآمد کنندہ کو سب سے زیادہ تیل برآمد کنندہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزیدگہرا کرنے کاموقع فراہم کیاہے۔یاد رہے کہ چینی صدر کے اس حالیہ دورہ سعودی عرب میں شی جن پنگ اور شاہ سلمان نے ایک ایسے جامع سٹریٹجک پارٹنرشپ معاہدے پر بھی دستخط کیے ہیں جو چین کے خارجہ تعلقات میں ریاض کو نمایاں مقام فراہم کرتا ہے۔اس معاہدے میں دونوں رہنماؤں نے ہر دو سال بعد ایک دوسرے سے ملنے کا عہد بھی کیاہے۔اسی طرح دونوں ممالک نے 29 بلین ڈالر سے زائد مالیت کے توانائی، ٹیکنالوجی اور مینوفیکچرنگ جیسے شعبوں میں درجنوں تجارتی معاہدوں پربھی دستخط کیے ہیں۔ان معاہدوں میں ہوائی کلاؤڈ کمپیوٹنگ ریجن کا قیام، سعودی عرب میں الیکٹرک وہیکل مینوفیکچرنگ پلانٹ کی تعمیر اور مستقبل کے سعودی شہر کے لئے گرین ہائیڈروجن بیٹریوں کی فراہمی شامل ہیں۔ امریکی میڈیانے چینی صدر کے دورہ سعودی عرب پر حسب منشا امریکی مفادات کا دفاع کرتے ہوئے اپنی خبروں اور تبصروں میں یہ تڑکا لگانے میں ذرہ برابربھی تامل سے کام نہیں لیاکہ مشرق وسطیٰ اور خاص کر سعودی عرب میں بیجنگ ان ممالک کی سلامتی کے معاملے پر واشنگٹن کی جگہ نہیں لے سکتا کیونکہ سعودی باشندوں کے لئے یہ سب سے اہم معاملہ ہے۔ البتہ اس دوران امریکی میڈیا نے یہ اندیشہ ظاہر کرنا بھی ضروری سمجھا ہے کہ ریاض کی واشنگٹن کے ساتھ اکلوتی حیثیت ختم ہو چکی ہے بلکہ واشنگٹن پوسٹ نے تو سرد جنگ دوم میں سعودی عرب کی اپنے مفادات کی ضمانت کے طور پر امریکہ کے مقابلے میں بیجنگ اور ماسکو کے قریب جانے کا بھی امکان ظاہر کیاہے جس سے یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں ہے کہ امریکی شہہ دماغ چین کے بارے میں کن خطوط پر سوچ رہے ہیں۔ جولوگ چین کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے میں سعودی دلچسپی کو ایک عارضی حربے کے طور پر دیکھ رہے ہیں انہیں وہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جب امریکی صدرجو بائیڈن نے اپنے جولائی کے مشرق وسطیٰ کے دورے سے قبل واشنگٹن پوسٹ میں اپنے ایک مضمون میں یہ نشاندہی کی تھی کہ چین سے مقابلہ کرنے کے لئے امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات کو بہتر کرنا ضروری ہے جب کہ محمد بن سلمان یقیناً اس صورتحال کو اس طرح نہیں دیکھتے۔ ان کے نقطہ نظر سے کھیل اب یہ ہے کہ وہ سعودی عرب کو فائدہ پہنچانے کے لئے چائنا کارڈ کو کس طرح بہتر انداز میں استعمال کر سکتے ہیں۔دراصل اس سوچ یا حکمت عملی کے ذریعے وہ بیجنگ اور واشنگٹن دونوں سے جوکچھ اور جتناکچھ حاصل کر سکتے ہیں وہ اسے حاصل کرنے کی حتی الامکان کوشش کررہے ہیں۔ محمد بن سلمان کی نظر میں چین صرف ایک لیور نہیں ہے جس کو امریکہ کے خلاف کھینچا جائے بلکہ اس کی اپنی اصل قدر ہے۔اس حقیقت کوکوئی نہیں جھٹلاسکتاکہ چین اب سعودی عرب کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے جس نے حالیہ برسوں میں امریکہ سعودی دو طرفہ تجارت کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور صدر شی کے دورے نے ان تعلقات پریقیناً مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔ چین اور سعودی عرب کے تعلقات میں ڈرامائی تبدیلی سے نہ صرف مشرق وسطی بلکہ پوری دنیا کے حالات پر اثر پڑے گا اور امریکہ اس تناظر میں جو پالیسی اپنائے گا اس میں چین کا مقابلہ کرنے کا عنصر غالب رہے گا۔