یہ نہیں کہ کبھی ہم ان سردیوں کی صبحوں میں سنگل قمیض میں نہیں گھومے۔گھومتے پھرتے رہے ہیں اور خوب گھومے۔صبح دم ایک بائیک سوار کو دیکھا اکہرے کُرتے میں ہوا کے دوش پر یہ جا وہ جا۔ نظر آیا یا پھرغائب۔ اس سرد ہوا میں اور وہ بھی اکیلی قمیض میں۔ہمیں اپنی جوانی یادآگئی۔حالی نے کہا ”گو جوانی میں تھی کج رائی بہت۔ پرجوانی ہم کو یاد آئی بہت“۔جوانی میں کسی چیز کی سمجھ کہا ں آتی ہے جو ان دنوں یہ معلوم ہو کہ یہ موسم سردی کا ہے۔ہوگا ہم بھی سنگل قمیض بھی خوب گھوما کرتے تھے۔کس نابکارکو پروا ہوتی کہ جسم وجاں کیا چیز ہوتے ہیں۔ ہم جو گذشتہ روز سڑک کنارے کھڑے تھے اس بائیک سوار کو دیکھا تو روح کانپ گئی۔ ہمارے روئیں روئیں میں سردی کی صبح یہ ٹھنڈک از سرِ نو بھر گئی۔حیرانی ہوئی۔پھر سوچا ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے۔جوانی کا بھی ایک زمانہ ہوتا ہے جو گزر گیا تو اس کی واپسی نہیں۔یہ کوئی دکاندار کا دیاہوا مال نہیں جو کہے کہ پسند نہ آئے تو واپس لے آنا۔اگر ایسا ہوتا بھی تو ہم اپنی موجودہ بڑھاپے کی زندگی دے کر جوانی کبھی واپس نہ لیتے۔کیونکہ موجودہ دور میں ہمیں جو قدرت کی طرف سے حاصل ہوا وہ جوانی میں تو نہ تھا۔ رات یا صبح ہو دھند میں لپٹی ہوئی گھڑیاں ہیں۔ جن میں سے گزرتے ہوئے سانس لینا بند کر دینا چاہئے۔کیونکہ ہمیں تو سانس کے لئے اس یخ بستہ موسم میں آکسیجن چاہئے آلودگی میں لپیٹا ہوا دھواں تو درکار نہیں۔سموک سے سموگ اور پھر یہ آلودہ دھند جسم کے اندر پھیپھڑوں میں جائیں تو پھربتلائیں کہ ہم کہاں۔ہم بھی تو جوان تھے اور خوب جوان کہ جسے جوانِ رعنا کہیں۔اب اگر وہ حسن نہیں رہا تو کیاہوا وہ جسم ہوا کی پہنائیوں میں تحلیل ہوا کیا ہوا۔ وہ روح تو اس گئے گذرے جسم میں اب بھی موجود ہے جس کو سردی لگتی ہے۔بستر میں بھی ٹھنڈک محسوس ہو توباہر ایک قمیض میں پھرنا کیامعنی رکھتا ہے۔ یہ نوجوان تو اپنی جان کے دشمن ہیں۔ایک تو بائیک پر تیز جانااور پھردوسرے سنگل قمیض میں دوڑتے پھرنا۔اس صورتِ حال میں جان کی حفاظت کے لئے کیا سامان بچ جاتا ہے۔بندہ اگر خود اپنی جان کی پروا نہ کرے تو کوئی کیا کر سکتا ہے۔جو کرنا ہے ہم نے خودکرنا ہے کسی اور نے اس سلسلے میں ہماری مدد نہیں کرنا۔بیماریاں روز بروز زیادہ ہو رہی ہیں۔ پھر چاہے نہ چاہے گاہے انسان کسی نہ کسی بیماری کا شکار ہوا جاتا ہے۔ایسے میں کہ کوئی پرسانِ حال نہ ہو اور ہسپتال جائیں تو وہاں سہولیات نہ ہو ں تو پھر اپنا خیال خود نہیں کریں گے تو کسی اور نے ہم پر دل نہیں دکھانا۔سردی تو زیادہ ہو رہی ہے۔مگر جو چیز بھی زیادہ ہوتی جائے اس بات کایہ بجائے خود ثبوت ہے کہ وہ ختم ہونے والی ہے۔یہ دھوپ چھاؤں کا موسم یہ سردی گرمی بس ایک کھیل ہی تو ہے۔جسے ہم ہر سال کھیلتے ہیں۔اب کوٹیاں خرید رہے ہیں۔ تو گرمی میں ہلکی والی قمیض پہنیں گے۔اس وقت اگر ٹھنڈ میں کوئی سرِ راہ مل جائے جو اسی طرح بائیک پر اکہری قمیض پہنے ہو تو اس کو دیکھ کر حیرت کے نہ ہونے پر خود حیرانی ہوگی۔بچوں کو اس قسم کی حرکات سے اس موسم میں بغیر سویٹر جانے سے روکیں۔کیونکہ یہ تو اپنے دھیان میں نہیں ہوتے جانے کس گمان میں ہوتے ہیں۔نہ تو خود سمجھتے ہیں اور نہ تو سمجھانے پر ان کو سمجھ ہی آتی ہے۔پھرایک کان میں ڈال کر دوسرے کان سے نکال دینے کے عادی ہوتے ہیں۔اگر ان کی حفاظت نہ کی جائے ان کو روکا نہ جائے تو اس مخلوق کو سردی گرمی کی کوئی پروا نہیں ہوتی۔ آدمی اتنا بے پروا اور اپنے آپ سے بلکہ لاپروا ہے کہ اپنا خیال نہیں کرتا۔ وہ سوچتا ہے بس یہ وقت ٹل جائے بعد میں دیکھا جائے گا۔ ایسے میں اس کے ساتھ کچھ بھی ہو جائے۔ایسے موقع پر کہ وہ موٹر سائیکل سوار عین صبح کے وقت اور ٹھنڈی ہوا کے دوران میں برق رفتاری سے دوڑتا ہوا جاتا۔ وہ کہ جس نے جسم پر کوئی سویٹر نہیں پہن رکھا تو ایسے میں وہ اپنی لاپروائی سے اپنے آپ کو کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے۔پھر یہ کوئی خیالی باتیں تو نہیں بلکہ روزانہ اس قسم کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ایسے سمے کے حادثات سوشل میڈیا پر بھی مل جاتے ہیں۔ ہمیں اپنے بچوں کا احساس کرنا ہوگا ان کو سمجھانا اوربار بار سمجھانا ہوگا۔