پاک بھارت تنازعات اور ثالثی

خوش آئند ہے کہ امریکہ نے پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالث کے طور پر کردار ادا کرنے کا اشارہ دیا ہے لیکن ایسی کوئی بھی کوشش اُس وقت تک کامیاب نہیں ہو گی جب تک دونوں فریق ثالث کے کردار کو تسلیم نہیں کرتے اور جب تک وہ تنازعات کے حل کی ضرورت خود محسوس نہ کر رہے ہوں‘ کسی تیسرے فریق کی مداخلت دوطرفہ تنازعات میں مثبت نتائج کی حامل ہو سکتی ہے لیکن ایسا صرف اُسی صورت میں ممکن ہوگا جب تنازعے کے مرکزی کردار ثالثی قبول کرنے کیلئے تیار ہوں‘ حالیہ پیشرفت میں پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان نے ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ واشنگٹن اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان لفظی جنگ نہیں دیکھنا چاہتا اور امریکہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تعمیری مذاکرات میں دلچسپی رکھتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ نے تحریک طالبان پاکستان کے خلاف انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں پاکستان کو ”غیر مشروط حمایت“ کی بھی پیش کش کی ہے اگرچہ یہ امریکیوں کی طرف سے باضابطہ یا باقاعدہ ثالثی کی پیش کش نہیں لیکن اس سے یہ اشارہ ضرور ملتا ہے کہ واشنگٹن ایک سہولت کار کے طور پر کردار ادا کرنا چاہتا ہے درحقیقت یہ امریکہ ہی ہے جو صرف پاک بھارت نہیں بلکہ فلسطین و اسرائیل تنازعے کے حل میں بھی مثبت کردار ادا کر سکتا ہے لیکن وہ عالمی تنازعات کو اپنے مفادات کی عینک لگا کر دیکھتا ہے۔ پاکستان کو امریکہ کی جانب سے ثالثی کی پیشکش پر زیادہ پراُمید نہیں ہونا چاہئے کیونکہ امریکہ کی جانب سے بھارت کو پاکستان پر ترجیح دینے کے ایک سے زیادہ واقعات  موجود ہیں اور اگر وہ حقیقتاً ثالثی کا کردار ادا کرنے کا خواہشمند ہوتا تو ایسا دفاعی تعاون سے بہت پہلے کر چکا ہوتا۔ غیر ملکی طاقتوں کے ساتھ کثیر الجہتی عالمی اداروں کی کوششیں بھی برصغیر کے خطے کو امن کا گہوارہ دیکھنا چاہتی ہیں تاہم اِس سلسلے یعنی امن کے فروغ کے حوالے سے ملے جلے نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ بھارت شملہ معاہدے کو ایک بنیادی معیار یا مرکزی خیال کے طور پر برقرار رکھتے ہوئے پاکستان کے ساتھ اپنے تنازعات حل کرنے کے لئے دوطرفہ نقطہ نظر پر زور دیتا رہا ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ جب امریکہ یا دیگر طاقتور مذاکرات کار بات کرتے ہیں تو بھارت سنتا ہے۔ تیسرے فریق کی ثالثی کی دیگر اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں جیسا کہ ایک خلیجی ریاست کی جانب سے بھی اشارتاً کہا گیا ہے کہ اُس کے پاکستان اور بھارت کے ساتھ خوشگوار تعلقات ہیں جنہیں بروئے کار لاتے ہوئے دونوں ممالک کو قریب لایا جا سکتا ہے‘ حقیقت یہ ہے کہ اگرچہ تیسرے فریق بات چیت میں سہولت کاری کرسکتے ہیں لیکن تمام تر محنت پاکستان اور بھارت کے فیصلہ سازوں کو خود کرنا ہوگی۔ ثالثی کی یک طرفہ کوششیں کارگر نہیں ہو سکتیں اور ماضی میں بھی اِسی وجہ سے یہ کوششیں بے نتیجہ رہی ہیں‘ ایک مرتبہ پھر ثالثی کی کوششیں آگے بڑھنے کا موقع فراہم کر سکتی ہیں لیکن اِس کیلئے بھارت کو قائل کرنا پڑے گا جو صرف پاکستان ہی کے ساتھ تنازعات نہیں رکھتا بلکہ اُس کے ہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بھی انسانی تاریخ کے ماتھے پر بدنما دھبہ ہیں‘ پاکستان اور بھارت کسی طرح کے دوستانہ تصفیے تک پہنچنے کیلئے بیک چینل رابطے جاری رکھیں اور کسی صورت دو طرفہ تجارت کی راہ ہموار ہو تو اِس سے بھی اعتماد سازی ہوگی لیکن سب سے اہم اور ضروری بات یہ ہے کہ بھارت اپنی ہٹ دھرمی ترک کرے اور اپنے جرائم کی پردہ پوشی کرتے ہوئے پاکستان میں دہشتگردی اور پاکستان کی ساکھ خراب کرنے کی کوششیں بند کرے۔