یہی شہر ہے یہی ہم ہیں 

وہ کہتے ہیں کہ ٹریفک کے موضوع پر لکھنا تمھارا مشغلہ ہے۔مگر ایسانہیں۔شہر کے ٹریفک پر قلم آرائی کرنا میری مشغولیت نہیں مجبوری ہے۔مجبوری اسی کی ہوتی ہے جس پر گزرتی ہے۔ جس پرنہ گزرے  اس کو کیامعلوم کہ تکلیف کس چیز کا نام ہے۔وجہ اس کی یہ ہے کہ میں روزانہ موٹر سائیکل اٹھائے گھومتا رہتا ہوں۔ مگر یہ دوڑنا بھاگنا شوق میں سیر سپاٹے کے تحت نہیں۔ یہ تو ضرورت ہے۔شہر ہے ڈیوٹی نبھانے جانا ہوتا ہے۔کبھی سوداسلف ہے کبھی کیا اور کبھی کیا۔غرض کسی نہ کسی کی خوشی غمی میں شرکت کو نکلنا پڑتا ہے۔جب سڑک پر آتے ہیں تو ٹریفک کا ایک طوفان ہو تا ہے اور وہ بھی طوفانِ بد تمیزی۔کیونکہ نہ کسی کو ٹریفک کے رول اصول معلوم ہیں او رنہ کوئی معلوم کرنا چاہتاہے۔ہر وقت بندہ ٹریفک میں الجھا ہوا اچھا بھی نہیں لگتا۔اپنے آپ سے نفرت ہونے لگتی ہے۔جس طرف گھوڑے کا منہ موڑو ٹریفک کے اژدہام کی ایک دیوار کھڑی پاؤ۔ بندہ کس طرف سے بچو ں کی مہم جوئی والی مصنوعی فضا کی زندگی کی مانند بائیک کو پانچواں گیئر لگائے اور اڑن کھٹولے کو ہوا کے دوش پر ہیلی کاپٹر کی طرح اڑاتا پھرے۔سو یہی شہر ہے اور یہی ہم ہیں ہم نے انھیں سڑکوں پر سے ہو کر آنا جانا ہے۔جہاں رش کے کارن پاؤں دھرنے کی جگہ بھی نہیں۔ ٹریفک ہے کہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے اور گنی چنی سڑکیں ہیں جو آئے روز محدود ہو تی جارہی ہیں۔ پھرکہیں نہ کہیں کوئی سڑک بند ہوتی ہے تو اس کا سارا نزلہ شہر کی قریب ترین سڑکوں پرنکلتا ہے۔پھرساری سڑکیں بند ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔آئے روز نئے سے نیا پلان بنتا ہے اور ٹریفک پھر سے بلاک ہونا شروع ہوجاتی ہے۔اصل پلان تو یہ ہو کہ شہر کی آبادی کو سامنے رکھ کر نئی سڑکیں اور نئی بستیاں آباد کی جائیں۔لوگوں کو شہرسے قدرے باہر آنے پر کشش دلائی جائے۔وہی شہر ہے اور اس پر آبادی کی ایک یلغار ہے۔سارا مسئلہ تو آبادی ہے۔ یہاں توگاڑیوں کا ذکر ہی کیا آبادی اتنی زیادہ ہو چکی ہے کہ پیدل ہی جایا نہیں جا سکتا تو گاڑی کو کون گھسیٹے گا۔ بلکہ بائیک کو بائی سائیکل کی طرح کاندھے پر اٹھا کر گھومنا ہوگا۔جہاں کہیں سڑک خالی نظر آئے اور فضاسازگارہو وہاں کندھا نیچے کر کے سائیکل کو زمین پر رکھ کر سواری کرنا ہوگی۔ اگر پھر بھی  نہ ہو تو قریب کی نہر میں سائیکل ہی کو اٹھا کر پھینک دیناچاہئے کہ پھریہ کس کام کی۔کیونکہ چلتی کا نام گاڑی ہے اور چلتے رہنے کا نام زندگی ہے۔جس طرف جاؤ روز ایک نیا پلان ترتیب دیا گیا ہوتا ہے۔سوچ سمجھ کر گھر سے قدم باہر نکالتے ہیں۔اگر گھنٹہ گھرجانا ہے تو کس طرف سے جانا چاہئے کہ وقت بھی بچ جائے اور پٹرول بھی باقی ماندہ رہ جائے۔مگر پٹرول بچتا ہے نہ وقت مل پاتا ہے۔بس سارا دن سڑکوں پردوڑتے پھرو۔صاحبان موٹر سائیکل پھربھی گھنٹہ سے زیادہ بیٹھو تو بندہ تنگ ہونے لگتا ہے اور جسم میں کڑول پڑتے ہیں۔گاہے تو ایسا ہوا کہ چلتے بائیک پر بائیں ٹانگ میں جو بل بڑا تو ٹانگ لہرا دی۔پیچھے سے گاڑیوں اور دوسری بائیک سواروں نے ہارن دینا شروع کر دیئے۔ایک نزدیک آیاتو کہا ایک تو راستہ نہیں دے رہے اور جو راستہ بچا ہے اس پر ٹانگ اڑا رکھی ہے۔مگر ان کو کیامعلوم ہے کہ ہم جیسے گزری عمر کے لوگوں کے جسم و جاں کے الگ الگ مسائل ہیں۔ہڈیاں چٹخی ہوئی ہیں گاہے اٹھنے بیٹھنے میں چٹخنے کی آواز بھی دیتی ہیں۔ پھر سرمایہ ہو توبندہ گاڑی بھی لے۔یہاں تو بائیک غریبوں کی سواری ہے۔ جس پر بال بچوں کو لے کر کہیں بھی نکل جاؤ۔ کہیں سے بھی اپنا کام نکلوا لو۔مگر کچھ ہی عرصہ ہوا ہے کہ اب بائیک غریبوں کی سواری نہیں رہی۔اب تو عام آدمی پیدل ہی چل سکتا ہے۔بائیک پر تو مالدار ہی گھومنے  لگے ہیں۔اگر پرانی کھڑنک بائیک ہو تو وہ چلاتے رہو اور اس کے وجود کو غنیمت جانو۔وگرنہ نئی ہر بائیک میں کم از کم پچیس ہزار روپے کا اضافہ ہو چکا ہے۔سو اس ماحول میں اگر گھر سے مجبوری کے عالم میں نکل چلو اور راستے میں آپ کو کہیں ٹرک مارنے کی کوشش کرے کہیں دوسرا بائیک والا دھکا دے کر گزر جائے کہیں سامنے سے آتی ہوئی گاڑی کا مالک یا ڈرائیور اپنا راستہ لینے کے لئے آپ کو دن کے وقت ہیڈلائٹس روشن کر کے غصہ والی آنکھوں سے وہیں رک جانے کو کہے تو بتلائیں بندہ پھرکیا کرے۔اپنے لئے الگ شہر بساناہوگا نئی دنیا تعمیر کرنا ہوگی اور اکیلے ہی بائیک پرپورے شہر میں فراٹے بھرتی ہوئی اور دھواں چھوڑتی ہوئی موٹر سائیکل لے کر گھومنا ہوگا۔پھر اگر کچھ نہ ہو تو صبر کرنا ہوگا۔اسی تنگ دامانی پر قناعت کرنا ہوگی۔پھراگر یہ ظلم ہے توبرداشت کرنا ہوگا۔ کیونکہ اس کے سوا کوئی چارہ بھی تو نہیں۔ہم نے اسی شہر میں رہناہے۔یہ کاروباری شہر اب ہر قسم کی دکانداری کا مرکز بن چکا ہے۔صبح دم تو شہر کے اطراف کی سڑکوں پر وہ رش ہوتا ہے کہ توبہ ہی بھلی۔ کیونکہ شہر میں جن کی دکانیں ہیں وہ دکان کھولنے کو شہر میں داخل ہوتے ہیں۔پھر شام کوکون سی شانتی ہوتی ہے۔ اب تووہ زمانہ نہیں رہا کہ رش کے لئے خاص وقت یا خاص دن ہوتے تھے اب تو24 گھنٹے اورہفتہ کے سات دن رش کا سما ہوتا ہے اور اس کی وجہ شاید یہی ہے کہ زندگی اس قدر مصروف ہو گئی ہے کہ جب بھی موقع ملے لوگ بازا ر کا رخ کر نے لگتے ہیں چاہے یہ موقع رات گئے ہی کیوں نہ ملے۔