منظور شدہ سکیم 

حکومت جب بھی کوئی سکیم منظور کر تی ہے تو عوام میں خوشی کی لہر دوڑ جا تی ہے پھر وہ سکیم منسوخ کی جا تی ہے تو عوام کی ما یو سیوں میں اضا فہ ہوتا ہے خیبر پختونخوا کو گلگت بلتستان سے ملا نے والی سیا حتی، تجا رتی اور دفاعی شاہراہ 2020-21کے بجٹ میں منظور ہوئی تو دونوں خطوں کے عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی 11ما ر چ 2021کو چترال سے شندور تک چار پیکیج بنا کر ٹینڈر کھو لے گئے پہلا پیکیج چترال سے بو نی، دوسرا پیکیج بو نی سے مستوج، تیسرا پیکیج مستوج سے شیداس اور چوتھا پیکیج شیداس سے شندور تک ہے اکتوبر 2021میں مشینری پہنچ گئی، کام زور و شور سے شروع ہوا تھا اپریل 2022میں حکومت تبدیل ہوئی، جون کے بجٹ میں منصو بے کو ختم کر کے فنڈ جنو بی اضلا ع کی ایک سڑک کو دیدئیے گئے تین مہینے تک ٹھیکہ داروں نے سابقہ بجٹ کے منظور شدہ گرانٹ پر کا م کیا اکتو بر کے مہینے میں ٹھیکیدار وں کو آخری حکم ملا کہ مشینری ڈیرہ اسمٰعیل خا ن منتقل کر و وہاں نیا پر و جیکٹ آرہا ہے چنا نچہ مشینری چترال سے اٹھا کر ڈیرہ اسمٰعیل خا ن منتقل کی گئی گلگت چترال شاہراہ پر کا م بند ہوا۔سکیم کی اس طرح بند ش کے دو بڑے نقصانات ہوئے ایک نقصان یہ ہے کہ آئندہ  اگر سکیم پر کا م شروع ہوا تو فیزیبلیٹی سے لیکر ٹینڈر ڈاکو منٹ تک سارا کام دوبارہ کرنا پڑے گا اس پر 20کروڑ روپے کی اضا فی لا گت آئیگی اور مزید دو سال لگیں گے دوسرا نقصان یہ ہوا کہ 1986ء میں چترال بو نی روڈ کا 80کلو میٹر حصہ اسفالٹ پلا نٹ کی مدد سے پا کستانی اور چینی کمپنیوں نے مل کر پختہ تعمیر کیا تھا وہ ساری سڑک برباد ہو گئی اس پر جو لا گت آئی تھی وہ ضا ئع ہو گئی کیونکہ سڑک کی کشاد گی کے لئے پہاڑوں کو کا ٹ کر سڑک کا پختہ حصہ اکھاڑ دیا گیا ہے چترال سے بو نی تک ڈیڑھ گھنٹے کا راستہ اب تین گھنٹے کا ہو گیا ہے با لکل اسی چترال سے ایون کا لا ش ویلی سڑک پر کا م کا آغاز کیا گیا تھا مشینری کام پر لگ چکی تھی۔ اکتو بر 2022ء میں اس پر بھی کام بند ہوا، چترال گرم چشمہ دو راہ روڈ کا منصو بہ فیز یبیلٹی کے بعد ٹینڈر کے مر حلے میں تھا اس کا ٹینڈر فوری طور پر منسوخ کیا گیا۔ایون کا لا ش ویلی روڈ سیاحتی اعتبار سے اہم منصو بہ تھا چترال گرم چشمہ دوراہ روڈ افغانستا ن کے صوبہ بد خشان سے جا ملتا ہے اس کی سیا حتی، تجا رتی اور دفا عی اہمیت تھی اس طرح لو اری ٹنل اپروچ روڈ پر بھی کا م بند کر دیا گیا ہے، اس میں معا شی مشکلات کا دخل بھی ہو سکتا ہے  تاہم یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ حکومتوں کی پا لیسیوں میں تسلسل سے استحکام آئے گا، تر قی ہو گی، خو شحا لی ہو گی اگر دیکھا جا ئے تو اس بات کی صداقت سے انکار کی گنجا ئش نہیں کہ چترال شندور اور ایون کالاش ویلی روڈ  کے منصوبوں کو مکمل ہونا چاہئے تھاکیونکہ ان کا تعلق سیاحت کے شعبے سے بھی تھا اور اس پر علاقے کی پائیدار ترقی  کا انحصار بھی تھا۔ اس لئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ترقی کے سفر کو مسلسل جاری رہنا چاہئے، حکومتیں اگر بدلتی ہیں تو کوئی بات نہیں، تاہم ترقیاتی منصوبوں کو بدستور جاری رکھتے ہوئے عوام کو سہولیات کی فراہمی کا سلسلہ نہیں رکنا چاہئے۔یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ روپے کی قدر میں جو کمی بیشی ہوتی ہے اس کے اثرات بھی ترقیاتی منصوبوں پر مرتب ہوتے ہیں اور زیادہ تر صورتوں میں لاگت بڑھ جاتی ہے اس صورت میں اگر تمام ترقیاتی منصوبوں کو بلاتعطل تکمیل تک پہنچایا جائے تو یہ بہترین پالیسی ہے اس سے نہ صرف عوام کو سہولیات فراہم کرنے اور ان کی زندگی میں بہتری لانے کا عمل جاری رہے گا بلکہ منصوبوں میں تاخیر نہ ہونے کے نتیجے میں ا ن کی لاگت میں اضافہ نہیں ہوگا اور یوں قومی خزانے پر پڑنے والے بوجھ کو کم کیا جا سکتا ہے۔