سٹیٹ بینک آف پاکستان نے مالی سال 2021-22ء سے متعلق متعلق سالانہ رپورٹ جاری کی ہے۔ رواں ہفتے جاری ہونے والی یہ رپورٹ پاکستان کی معیشت کی حالت کا بھی بیان ہے اور اِس کے تازہ ترین ”آؤٹ لک سیکشن“ میں سیلاب سے قبل معاشی نقصانات کے تخمینوں کا ذکر ملتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ملک کی ترقی جاری مالی سال (دوہزاربائیس تیئس) کے لئے کم رہے گی۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے گزشتہ ماہ کے لئے اپنی معاشی نمو دو فیصد بتائی ہے جبکہ حالیہ سیلاب سے قبل قومی شرح نمو تین سے چار فیصد ہونے کی پیشگوئی کی گئی تھی لیکن باوجود اس کے افراط زر میں اضافہ ہو رہا ہے اور غیر ملکی زرمبادلہ کے کم ذخائر ہیں جبکہ غیر مستحکم بیرونی قرضوں کے پیش نظر معاشی نمو جس کے دو فیصد ہونے کی پیشگوئی کی گئی ہے شاید اِس سے بھی زیادہ کم رہے۔ سٹیٹ بینک نے مذکورہ سالانہ رپورٹ میں رواں سال کے جاری اخراجات (کرنٹ اکاؤنٹ) خسارے سے متعلق بھی تخمینہ لگایا ہے جو چار اعشاریہ چھ فیصد کی سطح سے کم رہنے کا امکان ہے ذہن نشین رہے کہ سٹیٹ بینک نے گزشتہ ماہ جاری ہونے والے اپنے تازہ ترین مانیٹری پالیسی بیان میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا تخمینہ تین فیصد (تقریبا دس ارب ڈالر) لگایا تھا اور بینک کا یہ بھی کہنا ہے کہ مالی سال دوہزارتیئس کے دوران قومی معاشی نمو میں نمایاں کمی متوقع ہے۔ رواں مالی سال سیلاب کی وجہ سے درپیش مختلف چینلز کی وجہ سے ملک کی حقیقی معاشی سرگرمیاں متاثر رہیں گی بالخصوص فصلوں اور مویشیوں کو پہنچنے والے نقصانات کی وجہ سے زرعی شعبے کے نقصانات باقی ماندہ معیشت کے لئے بھی بُری خبر ہوں گے۔ سیلاب کی وجہ سے زرعی پیداوار کو پہنچنے والے نقصانات کے علاوہ توانائی کی سبسڈی واپس لینے اور ایندھن پر ٹیکسوں کی بحالی سے مہنگائی (افراط زر) میں اضافہ ہوگا۔ سبسڈیز کے خاتمے اور فیول ٹیکس میں اضافے سے جون 2022ء سے افراط زر میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور مالی سال 2023ء میں بھی یہ رجحان برقرار رہنے کا امکان ہے۔ اسی طرح سیلاب کی وجہ سے غذائی اجناس کی فراہمی میں کمی اور قیمتوں میں اضافہ متوقع ہے۔ مرکزی بینک کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال متعارف کرائی گئی استحکام کی پالیسیاں اور سیلاب کی وجہ سے آمدنی میں ہونے والے نقصانات رواں سال کے دوران طلب میں اضافہ بڑھا سکتے ہیں۔ رواں مالی سال کے لئے ٹیکس بیس وسیع کرنے‘ ٹیکس چھوٹ استثنیٰ کے خاتمے‘ ٹیکس شرحوں میں اضافے اور ایندھن ڈیوٹی بحالی کے ذریعے مالی سال 2023ء کے دوران حکومت کی آمدنی (وصولیوں) زیادہ ہونے کی توقع ہے۔ اخراجات کی طرف سے پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی (پی ڈی ایل) کے دوبارہ نفاذ سے نان ٹیکس محصولات بھی بحال ہوجائیں گے اور سبسڈیز کو معقول بنانے سے موجودہ اخراجات کو قابو میں رکھنے کا امکان ہے۔ مربوط مالی اور مانیٹری پالیسی سے مالی سال دوہزارتیئس میں بیرونی کھاتوں کے دباؤ میں کمی کا امکان ہے۔ سٹیٹ بینک نے پیش گوئی کی ہے کہ رواں مالی سال میں جاری اخراجات کا خسارہ گزشتہ سال کی چار اعشاریہ چھ فیصد جی ڈی پی کی سطح سے بھی کم ہو جائے گا جیسا کہ جولائی دوہزاربائیس کے بعد سے درآمدات میں سال بہ سال کمی سے عیاں ہے‘ پچھلے سال سے متعارف کرائے گئے طلب میں کمی کے متعدد اقدامات نے شرح نمو کی رفتار کم کی ہے تاہم حالیہ سیلاب کی وجہ سے زرعی پیداوار کو ہونے والے نقصانات سے زرعی اجناس خاص طور پر کپاس کی درآمد میں اضافہ ہونے کا امکان ہے۔ عالمی طلب میں سست روی رواں مالی سال کے دوران برآمدات کی نمو کو بھی کمزور کرسکتی ہے اور ترقی یافتہ معیشتوں میں پالیسی سخت کرنے سے اُبھرتی ہوئی اور ترقی پذیر معیشتوں میں سرمائے کے بہاؤ کے امکانات کم ہوجائیں گے۔ مالی سال دوہزاراکیس میں اضافے کے بعد سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زر میں کمی ہوئی ہے جو رواں مالی سال جاری رہنے کا امکان ہے۔ خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک کی جانب سے پاکستان کو کم قیمت تیل سے حاصل ہونے والا فائدہ بھی حاصل ہونے کا امکان کم ہے کیونکہ پاکستان سے کئے گئے بہت سے وعدے پورے نہیں ہوئے۔ مزید برآں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پروگرام کی بحالی کے ساتھ‘ مالیاتی اکاؤنٹ میں کچھ بہتری آئی ہے اور آئی ایم ایف پروگرام کثیر الجہتی اور دوطرفہ قرض دہندگان سے مالی وسائل ملنے کی توقع ہے جس سے رواں مالی سال غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کافی حد تک مستحکم ہوں گے۔ پاکستان کے لئے نیا سال 2023ء کا معاشی نقشہ مزید مشکلات اور مہنگائی کی تصویر پیش کر رہا ہے جس سے نمٹنے کی واحد صورت زرعی و غذائی خودکفالت ہے۔